کمرے میں دوڑ گئی۔
" کیا ہوا بھابی۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔؟"
" جلدی سے ٹھنڈے پانی یا جوس کا ایک گلاس لے آؤ۔ فی الحال کچھ مت پوچھنا۔" وہ اسے ہدایات دیتی اقصی کے پیچھے چلی گئیں۔ زرین خالی دماغ لیے کچن میں آئی۔ گلاس میں جوس بھر کر کمرے میں آئی تو اقصی ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ ندرت بھابی اسے بازوؤں میں لیے پیار سے آہستہ آہستہ کچھ بول رہی تھیں۔
زرین نے گلاس آگے بڑھایا۔ بھابی نے پرس سے ایک گولی نکال کر زبردستی اقصی کو جوس کے ساتھ د کھلا دی اور اس کا سر گود میں رکھ کر نرمی سے اس کا سر سہلانے لگیں۔ زرین کو اشارے سے لائٹ بند کرکے باہر جانے کا کہا۔
" کک ۔۔۔۔ کیا بات ہے بھابی میرا دل ڈوب رہا ہے' جلدی بتائیں۔" کچھ دیر بعد جب ندرت بهابی کمرے کا دروازہ بند کرتی باہر آئیں تو زرین دوڑ کر ان کے قریب آئی۔ دماغ جیسے آندھیوں کی زد میں تھا۔ کیا ہو چکا تھا' کیا ہونے والا تھا۔
" ادھر میرے کمرے میں آ جاؤ۔۔۔۔ اقصی اب سوگئی ہے۔ وہ اپنا بھاری وجود سنبھالتی اپنے کمرے میں داخل ہو گئیں۔
" اب بتائیں بھابھی! کیا بات ہے؟“ زرین نے بمشکل ان کے بیٹھنے کا انتظار کیا۔
" وہ کسی لڑکے کے ساتھ تھی' میں نے اسے بس اسٹینڈ کی طرف جاتے دیکھا تھا۔"
" بس اسٹینڈ۔۔۔؟" زرین کے خاک پلے نہیں پڑا۔ وہاں کیا کرنے گئی تھی اور لڑکا۔"
" بس اسٹینڈ انسان گھومنے نہیں جاتا زری۔۔۔۔ وہ اس لڑکے کے ساتھ جا رہی تھی' کسی دوسرے شہر۔۔۔۔"