" جی ۔۔۔۔" اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
"میں اور عظمت آپا مارکیٹ جا رہے تھے۔ ہماری گاڑی اس وقت سگنل پر کھڑی تھی جب اقصی کسی لڑکے کا ہاتھ پکڑے ہمارے آگے سے سڑک پار کرکے بس اسٹینڈ کے اندر چلی گئی۔ عظمت آپا کا اس طرف بالکل دھیان نہیں تھا۔ انہوں نے اقصی کو نہیں دیکھا۔ مجھے تو بس پل میں خطرے کی بو آ گئی اور میں یہ جان گئی کہ اگر ابھی یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو۔۔۔۔ خدانخواستہ بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے بس میں نے فورا" آپا سے اجازت لی اور گاڑی سے نکل آئی۔
" آپ نے انہیں اقصی کے متعلق نہیں بتایا؟" زرین کسی قدر بے یقینی سے بے ساختہ بول گئی۔
" پاگل ہوئی ہو۔۔۔ میرے گھر کی عزت داؤ پر لگی تھی۔ کیا میں اوروں سے شیئر کرت پھرتی۔۔۔ بلکہ اگروہ اقصی کو دکھ بھی لیتیں تو میں کوئی بہانا بنا لیتی اور انہیں بات کی سنجیدگی کا احساس نہ ہونے دیتی۔ بس اچھا ہوا جو سگنل کھل گیا اور وہ کچھ بول نہیں پائیں۔۔۔۔ بعد میں کچھ نہ کچھ کہہ کر ٹال دوں گی۔"
" پھر۔۔۔ اس کے بعد۔۔۔؟" زرین نے دهیان دوباره اقصی والی بات کی طرف دلایا۔
" پھر میں بھی بس اسٹینڈ کے اندر چلی گئی۔ وہاں اس وقت دو ہی بسیں روانگی کے لیے تیار کھڑی تھیں۔ مجھے اقصی اور وہ لڑکا باہر کہیں دکھائی نہیں دیے میں ویسے تو میں نے باری باری دونوں بسوں میں دیکھا۔ دونوں مجھے دوسری بس میں مل گئے۔ مجھے دیکھ کر اقصی پر شدید گھبراہٹ سوار ہوئی۔ وہاں چونکہ اور بھی بہت لوگ تھے۔ میں نے بنا کچھ کہے خاموشی سے اس کا بازو پکڑا اور باہر نکل آئی۔ اتنی دھکم پیل اور شور ہنگامے کا ماحول تھا کہ کسی کو بھی پتا نہیں چلا۔
" اور وہ لڑکا؟"
" وہ یوں سرپٹ بھاگا جیسے پولیس آ گئی ہو۔ ابھی یہی بات میں اقصی کو سمجھا