" ہاں۔۔۔۔ جیسے میں ہوں یہاں۔۔۔۔۔ اپنی ہر چیز کی مالکن۔" زرین نے تنک کر رضوان کو دیکھا۔
" اچھا۔۔۔۔ ہم چھت پر کنسٹرکشن شروع کرواتے ہیں ۔ اوپر دو کمرے بن جائیں گے تو۔۔۔۔" رضوان نے گویا مصالحت کی کوشش کی۔
"ضرورت نہیں ہے۔" زرین نے فورا" بإت کاٹی۔ " اوپر کا پورشن بن گیا تو نئے گھر کی رہی سہی امید بھی ختم ہوجائے گی اور مجھے نہیں رہنا اس بڑبولی باتوں کی فیکٹری کے ساتھ ۔۔۔۔ نہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہے نہ بچوں کے مستقبل کی فکر۔۔۔۔ ان کے بچے کہاں سے آ رہے ہیں ' کدھر کو جا رہے ہیں انہیں کچھ پروا نہیں ہوتی بس سارے جہان کی فکریں ایک ہماری جان سے چپکی ہیں، پتا نہیں قسمت ایسے لوگوں کے ساتھ کیوں لا باندھتی ہے جن کی ہم صورت تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔"
" زرین۔۔۔۔ زرین۔۔۔۔! لاؤنج سے ندرت بھابھی نے اونچی آواز سے پکارا تو وہ ایک دم سوچوں سے باہر آئی۔
" میں ذرا عظمت آپا کے ساتھ مارکیٹ تک جا رہی ہوں۔" وہ پرس میں کچھ رکھتی۔ تیز تیز بولتی باہرنکل گئیں۔
زرین سست روی سے ان کی طرف چل پڑی۔ اقصی کے آنے کا وقت ہورہا تھا۔ اس نے تھوڑے سے چاول بھگوئے تھے۔ سوچا لائٹ سا پلاؤ بنا لے۔ کچن میں کام کرتے شاید آدھا گھنٹا ہوا تھا۔ جب ڈور بیل بجی۔ وہ وال کلاک پر نگاہ ڈالتی دروازے پر آئى يقينا" اقصی ہوگی۔ اس نے دروازہ کھولا۔۔۔ لیکن یہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ اقصی کے پیچھے ندرت بھابھی بھی تھیں۔
" آ ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔!" اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن بھابھی نے منہ پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ زرین نے حیران حیران نظروں سے اقصی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور انسوؤں کی ایک لکیراسی وقت بے اختیار اس کے گال پر اتری تھی جسے انگلی سے صاف کرتی وہ اپنے