SIZE
2 / 9

کمرے میں آئی۔ لیکن سکون کیسے ملتا۔ ابھی چند گھنٹوں میں اقصی کالج سے آنے والی تھی۔ جس کی آنکھوں میں آج بھی وہی روز کا سوال ہوتا کہ کیا اس نے ابو سے الگ گھر کی بات کی اور روز کی طرح آج بھی زرین کا وہی ایک جواب۔۔۔ وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگی۔

" کیوں ہم چاہ کر بھی اپنے بچوں کی خواہش پوری نہیں کر سکتے۔ اپنی تو پوری زندگی الگ گھر کی حسرت میں گزر گئی۔ لیکن اب بچوں کے وقت بھی وہی نا امیدی۔۔۔ جانے ندرت بھابھی اور احسان بھائی کو جوائنٹ فیملی سسٹم سے چپکے رہنے میں کیا خوبصورتی نظر آتی ہے۔ جس طرح ہمارے بچے الگ گھر میں سکون سے رہنے کے لئے تڑپتے ہیں کیوں ان کے بچوں میں بھی یہ احساس پیدا نہیں ہوتا۔ ہم دوسرے گھر میں چلے جائیں گے تو انہیں

بھی پرائویسی اور زیادہ جگہ کی سہولت میسر آئے گی۔ لیکن کیوں۔۔۔۔؟ کیوں صرف میں اور میرے بچے ہی جلتے کڑھتے رہتے ہیں؟"

ابھی پچھلی رات ہی اس نے رضوان سے بات کی تھی۔ لیکن ان کا بھی وہی ایک جواب۔

" احسان بھائی نہیں چاہتے کہ ہم دو بھائیوں کی فیملیز الگ الگ رہیں۔"

و

" لیکن اقصی اب کالج میں آ گئی ہے۔ اسے الگ کمرہ چاہیے۔ سنی اور عبداللہ رات گئے تک گیمز کھیل کھیل کر اس بے چاری کا دماغ کھا جاتے ہیں۔ وہ کتنی مشکل سے ان کے ساتھ ایڈجسٹ کر رہی ہے۔"

" ہاں ۔۔۔۔ لیکن میں اب بھائی جان سے کیسے یہ سب کہوں۔۔۔ ابھی پچھلے سال ہی تو ان کی بیٹی بیاہ کر دوسرے گھر گئی ہے۔ وہ سوچیں گے' ہم نے تو کبھی بھی بچوں کی پرائیویسی کے چونچلے نہیں اٹھاۓ۔۔۔ ویسے بھی لڑکی اصل گھر تو اس کا سسرال ہوتا ہے۔ جب تک شادی نہیں ہو جاتی' اقصی کو جیسے تیسے گزارا کرنا پرے گا۔ اگلے گھر میں تو اپنی ہر چیز کی مالکن خود ہو گی۔"