اس بے ضرر اور طنز سے پاک کمنٹ کو دھڑا دھڑ لائکس مل رہے تھے۔ کہکشاں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وه موبائل میں گھس کر ہی اس کی ناک پر گھونسا جڑ دے۔
وہ غصے سے ان بکس کی طرف آئی۔
دیکھو شاہ زیب تم میرے پروفائل سے دور رہا کرو' بہت ہی برا ہوگا۔" وہ جانتی تھی کہ اس کی دھمکیاں بے اثر ہیں' لیکن بڑائی مارنے میں حرج ہی کیا تھا اور کالی برتن اگر آواز ہی پیدا کرے تو کیا بُرا۔
" تمہاری پروفائل نہ ہوئی سہیلی ہو گئی جس کے پیچھے میں پڑا ہوں اور تم مجھے دھمکیاں دے رہی ہو۔" وہان سے شدید بُرا مان کر کہا گیا۔
لڑکی کسی لڑکی کے پیچھے ہی پڑ جاؤ کم از کم میری پروفائل تمہارے شرسے محفوظ رہے گی۔ بد تمیز کہیں کے۔" وہ انتہائی حد تک چڑھ چکی تھی اور یہی شاہ زیب چاہتا تھا۔
" میں توباز نہیں آؤں گا کیا کرو گی؟"
" میں تمہیں بلاک کردوں گی۔ ایسی قاتل دھمکی۔ شاہ زیب کا قہقہہ گونجا۔ کہکشاں کولگا اس کا منحوس قہقہہ موبائل سے نکل کر اس کے کانوں میں گونجنے لگا ۔
" شوق سے بلاک کرو۔ ابھی کرو بلکہ ابھی کے ابھی کرو۔" اس کی یہ بات کہکشاں کو لگ گئی اور وہ بلبلا اٹھی۔
" تم مرجاؤ۔“اسے بددعا دے کر وہ لاگ آؤٹ کر گئی۔
کہکشاں نے شاہ زیب سے ہی اپنی ای میل آئی ڈی بنوائی تھی جس کا پاس ورڈ شاہ زیب کے پاس موجود تھا۔ تبدیل کرنے کی زحمت اسے نہیں کی تھی۔ البتہ فیس بک کی آئی ڈی کا کوڈ وہ تبدیل کرتی رہتی تھی۔ ایک بار شاہ زیب کے یونہی چڑانے پر وہ شدید غصے میں آئی اور اسے بلاک کردیا۔ جوابی کارروائی کے طور پر اس نے کہکشاں کی آئی ڈی ہتیھا لی تھی۔ پورا ہفتہ اس سے منتیں کروانے کے بعد پھر کہیں جا کراس نے کہکشاں کو اس کی آئی ڈی واپس کی۔ شاہ زیب کے پاس اگر پاس ورڈ نہ بھی ہوتا تو بھی اس کے لیے یہ کام مشکل نہ تھا۔ سوہ کمپیوٹر انجنئیر تھا۔
اس ایک سبق کے بعد اس نے شاہ زیب کو دوبارہ بلاک کرنے کا بالکل نہیں سوچا تھا۔ اب بھی وہ صرف دانت کچکچا کر رہ گئی۔ دل ہی دل میں اسے کوستی اپنی تمام توجہ ریڈیو پر چلنے والے گیتوں کی طرف موڑ لی۔ چند منٹ بعد وہ ساری تلخی بھول چکی تھی۔ اس کا موڈ بالکل ٹھیک ہو گیا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔ پاگل سی۔
کہکشاں جس کی فطرت میں سارے جہان کا لاابالی پن آن سمایا تھا۔ وہ ہمہ وقت ماں کے نشانے پر رہتی۔ اماں اسے پیار سے سمجھاتیں' نصیحتیں گھول گھول کر پلاتیں۔ سکتی بھی کر جاتیں لیکن اس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔
گھر کے کاموں میں اس کی دلچسپی صفرتھی۔ پڑھائی کے معاملے میں بھی وہ ڈھیلی۔ اماں سر پر ڈنڈا لے کر کھڑی ہوتیں تو امتحانات کی تیاری ہوتی۔