امتحانات کے دنوں میں اس کی شکل دیکھنے والی ہوتی تھی۔ امتحانات کے بعد اماں نے سوچا کہ اس پر گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کی ذمہ داری ڈالی جائے۔ اسے صرف چند چیزوں میں د لچسپی تھی۔ گانے سننے' ٹی وی اور فلمیں دیکھنے ناچنے، فیس بک استعمال کرنے اور کھانے پینے میں اور ہاں یاد آیا سونے میں بھی!
اس نے کھا کھا کر' سوسو کر اپنا وزن بڑھال یا تھا۔ اماں نے پورے گھر کی صفائی کا ذمہ اسے دیا۔ اس نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ پھر اماں نے اس کے لیے آسان کام چنا تھی کہ باتھ رومزکی صفائی' دھلائی کرے۔ یہ سنتے ہی اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئیں۔ اماں کے ڈر سے اس نے روتے دھوتے یہ کام کیا۔ آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے اماں اس کے کاموں کی تعداد بڑھاتی گئیں۔ اس نے بھی انہیں بے تحاشا تنگ کیا۔ کمرے میں جھاڑو لگاتی توبیٹڈ شیٹ جھاڑ کر بچھانا بھول جاتی یا ڈسٹنگ ہی بھول جاتی۔ کبھی یہ سب کرتی تو اس کا معصوم ذہن پونچھا لگانا بھول جاتا اور بھی نہ جانے کیا کیا لیکن اس باراماں نے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ ثابت کر کے رہیں گی کہ وہ کہکشاں کی ڈھٹائی سے بھی زیادہ مستقل مزاج خاتون ہیں۔ اب اتنا تو ہو گیا تھا کہ ذمے لگائے گئے تمام کام وقت پر کردیتی۔ باقی اگر کوئی اضافی کام ہوتا تو وہ گونگی' بہری اندھی' کانی سب کچھ ہو جاتی یا پھر ردا کے متھے لگا دیتی۔ ردا اس سے بڑی تھی۔ وہ ماسٹرز کرچکی کی اور جاب کر رہی تھی۔
وہ کہکشاں سے بالکل الٹ سلجھی ہوئی' سمجھ دار' معاملہ فہم تھی اور تب سے ہی وہ اپنی اماں کی مدد کرتی تھی۔ انہیں یہ خوش فہمی تھی کہ کہکشاں بیگم بھی اپنی بڑی بہن کی طرح ہوں گی لیکن وہ تو اس دنیا کا پہلا اور آخری نمونہ تھی۔ اسے زبردستی جگا کر کالج بھیجا جاتا تھا۔ ان دنوں اس کی چھٹیاں تھیں۔ کلاسز ختم ہو چکی تھیں۔ امتحانات میں ڈیڑھ ماہ تھا لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ کتابوں سے کوسوں دور تھی۔ اس کی انہی بگڑی ہوئی حرکتوں سے اماں سخت عاجز تھیں اور شاہ زیب اس کی درگت بنتے دیکھ کر خوب مزے لیتا۔
شاہ زیب اس کے تایا کا بیٹا تھا۔ فطرت بے انتہا شریر۔۔۔ اس سے پورے چار سال بڑا اور ردا سے فقظ چار ماہ بڑا۔
شاہ زیب اور کہکشاں۔۔۔۔ یہ دونوں بچپن سے ہی چونچیں لڑاتے آئے تھا کہکشاں کو تو اس سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ بیرہوتا ہی کیوں نا۔ وہ ایک نمبر کا موقع پرست' تاک تاک کے اس پر زبانی حملے کرتا۔ وہ انتہائی جذباتی جبکہ صاحب بہادر شیطانوں کے ابا' دونوں کی کیسے بنتی بھلا؟ شاہ زیب کہکشاں کی ہر کمزوری سے واقف تھا اور وہ انہی باتوں سے فائدہ اٹھاتا۔ اسے بہت تنگ کرتا۔ وہ غصے سے پاگل ہو جاتی۔
شاہ زیب کی آمد عموما اس وقت ہوتی جب اسے اماں سے جھاڑ پڑ رہی ہوتی۔ کہکشاں کو تو اس ڈاٹ پھٹکار کی عادت تھی مگر وہ آج تک شاہ زیب کے مزه
لیتے چہرے کی عادی نہ ہو پائی تھی۔ چوبیس میں سے چودہ گھنٹے حالت جنگ میں رہتی تھی باقی کے گھنٹوں میں وہ سوئی جو رہتی تھی۔
یہ اتفاق تھا یا خدا جانے کیا تھا۔ ویسے تو گانوں کے معاملے میں اس کی پسند بہت اچھی تھی لیکن جب بھی وہ ایسی ویسی شاعری والا گانا وہ سن یا لہک لہک کر گا رہی ہوتی تو اماں کے کانوں میں فورا ہی اس کی آواز پہنچ جاتی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہی ہوا۔ ایک پُرانا سا گانا تھا لیکن اس کی سماعتیں پہلی بار اس کی آواز سے اور الفاط سے مستفید ہو رہی تھیں۔ اس لیے بار بار وہی گانا اس کی زبان پر چڑھ جاتا تو اس میں کہکشاں کی تو کوئی غلطی نہ ہوئی نا؟ گانا گنگناتے ہوۓ آواز بھی ذرا زیادہ اونچی ہو گئی۔
گانے کے بول کچھ یوں تھے'
" میں ہوں لڑکی کنواری تو کنوارہ لڑکا"
آہ۔۔۔ اوه۔۔۔۔ اؤچ۔۔۔۔
تجھے پیار کا لگا دوں میں پنجابی تڑکا۔
آہ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اؤچ۔۔۔۔
یہ آہ' اوه' آوچ اسے کچھ زیاده ہی پسند آ گیا تھا۔ وہ جھاڑ پونچھ کرتی اور ساتھ ہی ساتھ جذبات میں گُم ہو کر یہ گانا گنگنا رہی تھی۔ وہ ہمیشہ کی مگن ہوگئی۔۔۔۔ اتنی کہ اماں کی موجودگی بھی فرموش کر گئی۔
ایسی شاعری سن کر تو اماں کے دل کو کچھ ہو ہی گیا۔
" یہ کیا بکواس گا رہی ہے تو ؟" وہ بستر پرلیٹی ہوئی تھیں۔ کرنٹ کھا کر اٹھیں اور دھاڑ کر بولیں۔
" اماں۔۔۔۔ یہ تو گانا ہے۔" وہ منمنائی۔