SIZE
2 / 23

اگر گھر صاف کر لیا ہے تو منہ بھی صاف کرل۔ پانچ منٹ لگیں گے۔ گندا منہ لے کر پھر سے بستر پر گر جانے والی عادت نہ جانے کہاں سے آ گئی اس میں۔ اماں کی آواز نے پھر سے اس کا پیچھا کیا وہ بد مزہ ہوئی۔ اماں جانتی تھیں کہ اس حوالے سے اس پر چلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ وہ دن میں صرف صبح کے وقت منہ دھونا پسند کرتی تھی۔ اس کے بعد صابن کا چہرے پر لگنا جرم ہو جاتا تھا جیسے۔ سوانہوں نے اپنی توانائی ضائع ہونے سے بچا لی۔

کہکشاں اب مکمل آرام کے موڈ میں تھی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے موبائل نکالا اور فیس بک کھول کر دیکھنے لگی۔ اب وہ بستر پر نیم دراز گانے سنتے ہوۓ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر رہی تھی۔ ’’فیلنگ پر سکون' انجوائنگ میوزک" ابھی اسے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس کا موبائل بجا۔ موبائل دیکھا تو شاہ زیب کا میسج تھا۔ اس نے میسج کھولا۔ شاہ زیب نے کہکشاں کا ہی تازه ترین اسٹیٹس کاپی کرکے اسے ان باکس کیا تھا۔ وہ سمجھ گئی کے شاہ زیب کے شیطانی دماغ میں کچھ نیا چل رہا ہوگا اور اب وہ پوری تیاری سے موجود ہے۔ اس لیے وہ چوکنی ہو گئی کیونکہ جب وہ بھی موڈ میں ہوتا۔ شرارت کی پہل اس کی جانب سے ہوتی اسے وہ اتنا زچ کردیتا کہ کہکشاں کا بس نہ چلتا وہ اسے بارود سے ہی اڑا دے۔ لیکن اب اسے جواب تو دینا ہی تھا۔

" کیا تکلیف ہے تمہیں؟ مجھے میرا ہی اسٹیٹس کیوں بھیجا ہے؟" اس نے انتہائی غصے سے پوچھا۔

" سوچ رہا ہوں کہ لوگ موسیقی سے محظوظ ہونے کے لیے بھی کیسے کیسے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ ابھی آدھا گھنٹہ پہلے ہی میں نے ایک لائیو سین دیکھا تھا جہاں میوزک انجوائے کرتے ہوئے لوگوں کو اڑتی ہوئی چپل آ کر سلامی دے رہی تھی۔ ویسے کمال کا نشانہ ہے چچی جان کا۔"

اسکرین پر چمکتے الفاظ پڑھ کر اس کا سانس رُک گیا۔

" یہ بدتمیزکب آیا وہاں؟" وہ حیران تھی۔ اب اس کی سمجھ میں اماں کا جملہ آیا ک کہ نہ آۓ گئے کا لحاظ' نہ ماں کی شرم۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اُف۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی اسے شاہ زیب ہنس ہنس کر دوہرا ہو تا دکھائی دے گیا۔ جو ہونا تھا وہ چکا۔ اس نے جو دیکھنا تھا وہ۔۔۔ وہ بھی دیکھ چکا تھا۔ کہکشاں نے محض "ہونہہ" لکھا اور کمنٹس دیکھنے لگی۔ اس کے دوستوں کی فہرست طویل تھی۔ اکثر اس کی پوسٹس پر لائیکس اور کمنٹس کرتے تھے۔ شاہ زیب بھی اس کام میں پیش پیش ہوتا تھا۔ اس کے کمنٹس' کمنٹس کم اور آگ لگانے والی تیلی زیادہ ہوتے تھے۔ یہی کام کہکشاں بھی سرانجام دیتی تھی لیکن اس کا زور کم ہی چلتا تھا۔ اب بھی شاہ زیب نے کمنٹ کیا۔ نوٹیفکیشن میں اس کا نام دیکھ کر اس کا دل بے چارہ سینے میں پھڑپھڑا کر رہ گیا۔ شاہ زیب کا کیا بھروسا' کیا خبراس نےحقیقت بیان ہی نہ کردی ہو۔ اس نے ڈرتے ڈرتے چیک کیا تودرج تھا۔

" کہکشاں تم کتنی خوش قسمت ہو کہ اپنی مرضی سے کبھی بھی میوزک انجوائے کر سکتی ہو۔ ایک بے چارہ میں ہوں' اگر گھر میں موسیقی کا نام بھی

لے لوں تو اماں چپل اٹھائے پیچھے دوڑتی ہیں۔ کبھی بهولے سے گنگا لوں تو میری اماں ایسے تاک تاک کر چپل سے نشانے مارتی ہیں کہ میری نازک کمر نیل و نیل ہو جاتی ہے۔" اس طویل کمنٹ کے اختتام پر اس نے چڑانے کے لیے شکل بھی بنائی ہوئی تھی۔ کہکشاں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ شاہ زیب کے