اپنے لیے سستے سے کپڑے' سیل والی جوتی اور سگریٹ پان کی عادت نہیں تھی ۔ سب کچھ بچ بچا کر سب کو خوش رکھتے مایوس کسی کو نہ کیا۔
یہ اور بات تھی کہ احسان نہ بیاہی بہنوں نے مانا ' نہ بھائیوں نے بلکہ پیسوں اور چیزوں میں ذرا سی دیر ہوئی تو بے حسی کا خطاب' دوسرے کو زیادہ دینے کا طعنہ فٹ سے دے مارتے۔ مگر چھوٹے چاچو نے کبھی برا نہیں مانا وہ برا ماننے والے نہیں تھے' بہنوں کے بچوں کی چھوچھکوں پہ چھوچھک تیار کرتے اور بروقت پہنچاتے رہے بلکہ کئی بار بھابیوں کے لیے دائی کا انتظام بھی رات گئے انہوں نے کیا۔ پریشانی میں ٹہلتے پھرے۔ اپنے بھتیجے بھتیجوں کی پریشانی بھائیوں کے گھروں کے بکھیڑے۔
وہ اپنی ذات میں انجمن تھے وہ بہت بڑی انجمن۔ جس میں خود ان کی اپنی جگہ ہی نہیں تھی۔ حماد' ذیشان اور فری بھی ان سے پیسے اینٹھتے رہتے تھے۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی وہ بھی اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل لے کر ان کے پاس ان کے کمرے میں آتے جہاں وہ لوہے کا بڑا صندوق پلنگ کے نیچے رکھے لیٹے ہوتے۔
(وہ اپنے کپڑے اسی صندوق میں رکھتے تھے) اور اپنے دکھ درد بیان کر کے کچھ نہ کچھ مانگ کر لے جاتے اور باغیچے میں بیٹھ کے چھوٹے چاچو کو بیوقوف بنانے کے قصے لیے ایک دوسرے کو سناتے اور محظوظ ہوتے مگر مروا اب سولہ سال سترہ سال کی ہو چکی تھی۔
وہ بچپن سے چاچو کو اسی طرح دیکھتی ائی تھی' کسی کو چاچو کی فکر نہیں تھی وہ سب کی فکر میں اپنے آپ کو بھول چکے تھے۔ اسے ان پر ترس اتا تھا۔ کبھی دادی چاچو کو باتیں سناتیں تو کبھی دادا' کبھی بھابی اپنی پریشانیاں شئیر کرتیں اور وہ آبدیدہ ہو جاتے۔ وہ نجانے کہاں کہاں اوور ٹائم کرتے تھے۔
بچے اچھے اچھے سکولوں میں پرھتے تھے ' اچھا کھاتے پہنتے تھے مگر ان کے رونے پھر بھی کم نہیں ہوتے تھے۔ وہ شوہروں کی بجاۓ چاچو کو تھکاتی تھیں وہ جان مارتے تھے' حقیقت میں اور حاصل کچھ بھی نہیں کوئی خوش نہیں تھا۔