دادی بھی بلائیں لیتے نہ تھکتیں اور بہن نے خوشی سے لال چہرے سے رونا شروع کر دیا تھا' ایک ہی بھائی تھا جس کو ان کا خیال تھا۔ جو بھائی تھا تو بھائی بن کے بھی دکھایا تھا۔ بڑے عباس اور عماد کی طرح بے حس نہیں جنہیں اپنا بینک بیلنس بنانے اور نت نئی چیزیں خریدنے سے ہی فرصت نہیں تھی یہ اور بات تھی کہ فریج کی قسط اور لون والے پیسوں کی ادائیگی نے ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے کر دیا تھامگر فرائض کی ادائیگی اور ماں کی دعائیں انہوں نے سمیٹ لی تھیں۔
ابا جی کاغصہ تھا تو سوا نیزے پر مگر انہیں خبرہی نہیں بھی کہ چھوٹے چاچو نے ان کو کس درد سے نکالا تھا۔ انہوں نے تو بچپن سے محنتی سے چاچو کے ذمے ہر کام لگا کر مطمئن زندگی گزاری تھی۔
بڑی بھابھی نے اچار کے لیے لسوڑے تڑوانے ہوں' اچار کے لیے تیل منگوانا ہو' چھوٹی بھابھی نے باریک قیمہ جو ایک دم تازہ اور تندرست جانور کا ہو اس کی تلاش میں بھی چھوٹے چاچو ہی نکلتے۔ آج کیا پکنا ہے اور کس جگہ کیا سستا ملتا ہے اور کیسا مل سکتا ہے یہ بھی چاچو کوپتا ہوتا دادی کے پاؤں دبانے کو بھی رات گئے تک چھوٹے چاچو ہی میسر ہوتے وہ فرماں بردار جو تھے باقی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔
چھوٹے چاچو کوبتا دیا تو ٹھیک ورنہ بچوں کی طرح ناراض ہوتے شکوہ کرتے پاۓ جاتے۔ کچن میں تب تک بڑ بڑ کرتے رہتے جب تک کہ کوئی آ کر منا نہ لیتا۔ وہ چپ نہیں ہوتے تھے مہینے کے مہینے بھابیاں آ کردکھ سکھ بانٹتیں اور غائب ہو جاتیں کیونکہ پیسے مل جاتے تھے۔ بٹ جاتے تھے برابر اور چاچو اتنے گھٹیا اور گرے پڑے نہیں تھے نہ سوچ چھوٹی تھی کہ بڑوں کی طرح اپنی بیوی کے لیے بھی کچھ بنوا کے چھپ چھپا کے رکھ لیتے۔
بڑے اور چھوٹے نے تو دو دو تولے کےکنگن نکالے تھے اور ماں کئی دنوں تک کلستی رہی تھی' چھوٹے چاچو نے تواتنی بد دعائیں اور اماں کے دکھ میں دیکھ کر کنگن تو کیا شادی کا نام لینا بھی گناہ سمجھ لیا تھا۔
بہنوں کے دکھ سکھ میں پیش پیش رہتے' ادھر سے پکڑے ادھر سے مانگے