مروا ان سے پیسے نہیں مانگتی تھیبلکہ ان کے لیے کھانا چھپا کر رکھتی تھی' رات گئے جب وہ لوٹتے تو مروا ہی نہیں ملتی جو کھانا گرم کرتی اور چاۓ بنا دیتی۔ وہ اتنے سادہ تھے کہ اس طرح اپنا خیال رکھے جانے پر بھی شرمندہ ہو جاتے۔ وہ کماتے تھے تو ان کا بھی حق تھا مگر انہوں نے خود کو پہچانا ہی نہیں ' پڑھ لکھ کر گنوایا تھا بس۔
کبھی کبھار وہ اکتا جاتے ' انہیں ذرا سا غصے میں دیکھ کر دادی چڑھ دوڑتیں' ہان کر لے تو بھی شادی' تیرے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں جو بڈھا بڈھی پر ضائع ہو رہے ہیں' چھوڑ دے بھائی' ہمیں جتنا کھلایا ہے احسان ہے تیرا۔" دادی کی اس بات پر وہ اپنے بال نوچ لیتے' یہی بات انہیں کئی سالوں تک خاموش کروانے کی تدبیر تھی۔ وہ طعنہ نہیں سن سکتے تھے یہ بات برداشت نہ تھی اور ان کی یہ خامی سب کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بے قصور ہو کر بھی مجرم بن جاتے اور وہ واقعی مجرم تھے' اپنے مجرم۔
ان کے سامنے اپنے سفید ہوتے بال تھے ' وہی بچے جن کی پیدائش پہ وہ فکر مند تھے آج ان کی شادیوں کی بات چیت چل رہی تھی اور ان کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا تھا ' سب کو اپنے عیش اور سکون کی فکر تھی ان کی نہیں کسی طرح نہیں۔ پھر چاچو کو محبت ہو گئی تھی عنایہ سے۔ عنایہ ان کی زندگی میں یوں داخل ہوئی کہ انہیں خود کی خبر نہ ہو سکی تھی' دل نے عجیب لے پر دھڑکنا شروع ہو گیا تھا۔ ایک سرد سی شام فرحین بھابھی نے انہیں نسرین خالہ کے ہاں بریانی دینے بھیجا تھا وہیں ان کی ملاقات عنایہ سے ہوئی' اس کا رسمی سا انداز انہیں ہے اختیار کر گیا تھا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے تھے۔
" دل بغاوت میں ہے۔"
ان کی واپسی بھی بڑے بوکھلائے ہوئے انداز میں ہوئی تھی - ہروقت مصروف رہنے والے چاچو اب کھوئے کھوئے رہتے۔ ایک دم سے سب کو فکر مندی
نے گھیر لیا تھا۔ سارے کام تلپٹ ہونے لگے تھے اور وہ جو سنجیدہ سنجیدہ پھرا کرتے تھے' ایک دم سے ہنستے مسکراتے پائے جا رہے تھے' بے رونق چہرا