ایگزامز سے جان چھوٹتے ہی گھر کے کام گلے پڑ گئے۔ سارا دن کام کر کے تھکن سے برا حال ہو جاتا۔ اس دن موسم نے اثر دکھایا اور زکام کے ساتھ بخار نے گھیر لیا۔ احتشام اور ابو گھر نہیں تھے اماں جی نے پڑوسیوں کے بچے کو بھیج کر ٹیکسی منگوائی اور مجھے لے کر اسپتال آ گئیں۔ ڈاکٹر چیک کرنے آیا تو دیکھا "ارے یہ تو پڑوس والا ہینڈسم ہے " اس مغرور نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔ بس چپ چاپ چیک اپ کے بعد میڈیسن تجویز کرنے لگا۔
" بیٹا تم وہی ہو نا جو سلمیٰ کے گھر رہتے ہو۔" اماں نے پہچان بنانے کی کوشش کی۔
" جی خالہ وہی ہوں اور یہ محترمہ موسم کی پروا کیے بغیر پتنگ اڑائیں گی تو بخار تو ہوگا۔" لبوں پر ہلکی مسکراہٹ لیے اس نے شرارتی لہجے میں جب یہ بات کی تو بے اختیار اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ دل دھڑکنا بھول گیا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے پر سج رہی تھی۔ چہرے پر نرمی کا تاثر اور عام سرکاری اسپتال کے ڈاکٹرول کے برعکس وہ زرا بھی تھکا ہوا نہیں لگ رہا تھا۔ میڈیسن لے کر گھر واپس آتے ہوئے اس کا مسکراتا چہرا جتنا بھلانے کی کوشش کرتی اتنا زیادہ یاد آتا۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ آرام کر کے تھک گئی تو چھت پر کرسی ڈال کر بیٹھ گئی۔ اس دوران احتشام اور ہنیہ اوپر آ گئے۔
" کیا بات ہے آپی کن خیالوں میں گم ہو۔" احتشام قریب بیٹھتے ہوۓ بولا۔
" کچھ نہیں۔"
" لگتا ہے باجی کو جناب کا انتظار ہے جو پراۓ دیس میں بیٹھا ہے بقول شاعر وہ عشق جو انگلینڈ بیٹھ گیا۔" ہنیہ عادت سے مجبور تھی۔
" کیا ہنیہ ہر وقت ایک ہی بات ' خدا کے لیے کبھی محسن کا ذکر نہ بھی کیا کرو۔" میرا لہجہ نہ جانے کیوں سخت ہو گیا۔ ہنیہ اور احتشام حیران رہ گئے۔ میں اٹھ کر نیچے جانے لگی تو پیچھے سے احتشام کی آواز سنائی دی۔
" یہ آپی کو کیا ہوا ہے۔" بخار تو اتر گیا مگر علاج کرنے والا عجیب طرح کا احساس دے گیا۔ چڑچڑاہٹ نے جیسے گھیر لیا ہو۔
اماں جی بھی اب مجھ سے کم بات کرتیں۔ احتشام اور ہنی بھی دور دور رہتے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔
اس دن سب نیچے تھے اور میں چھت پر چلی آئی۔ غیر ارادی طور پر سامنے چھت پر دیکھا تو وہ دکھائی دیا۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ دور سے ہاتھ ہلا کر وہ قریب چلا آیا۔
" کیسی طبعیت ہے آپ کی فریدہ۔"
" ٹھیک ہوں ڈاکٹر صاحب " اسے میرا نام کیسے معلوم ہوا' یہ سوچتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کے بولا۔
" ہارون نام ہے میرا ڈاکٹر صرف اسپتال میں ہوتا ہوں یہاں انسان ہوں۔" یہ مسکراہٹ شاید اس کے چہرے کا حصہ تھی۔
" تو کیا ڈاکٹر انسان نہیں ہوتے۔"
" جی ہوتے ہیں مگر لوگ ڈاکٹر کے نام سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے چڑیلا ہو۔"
" میں تو نہیں ڈرتی۔"
" اس لیے آۓ دن اسپتال کا چکر کاٹنا پڑتا ہے۔"
" کیا!!۔۔۔۔۔ میں صرف ایک بار گئی ہوں۔"
" ہاں مگر ہر وقت دکھائی دیتی ہو۔" اس کے لہجے میں ایسی کوئی بات تھی جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ وہ یہ کہہ کر چلا گیا اور میں اس کو دیکھتی رہی " تو کیا وہ بھی؟"
اداسی کا یہ پہر طویل ہوتا چلا گیا۔ پھر اکثر جب چھت پر کوئی نہ ہوتا تو وہ چلا آتا۔ نہ جانے کب وہ میرے لیے لازم ہو گیا۔ اس کی باتیں' اس کی عادتیں اور سب سے بڑھ کر اس کی مسکراہٹ ' یوں لگتا جیسے میری زندگی کے سب سے خوبصورت لمحے اس کے ساتھ ہیں۔ ہم نے اظہار نہیں کیا تھا مگر اپنے اپنے دل کی حالت سے خوب واقف تھے۔ کبھی کبھی وہ میرا ہاتھ پکڑ لیتا تو اس کا لمس دل میں خوب صورت احساس جگا دیتا۔ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی مگر خوشی کا یہ وقت بہت مختصر تھا۔
اس شام فہمی نے بتایا کہ محسن آ رہا ہے۔ میں نے ہارون کو اپنے بارے میں سب بتا رکھا تھا۔ جب اسے یہ بتایا کہ محسن واپس آ رہا ہے تو وہ بھی پریشان نظر آنے لگا۔ " اب کیا ہو گا فری میرا تو آپ کے بغیر ایک پل بھی گزارا نہیں ہوتا۔"