" اوۓ فری ادھر دفع ہو۔" یہ فہمیدہ تھی جو ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ " کیا ہے فہمی کبھی تو پڑھ بھی لیا کر دیکھ سارے ایگزام کے لیے رٹا مار رہے ہیں تو بھی کچھ کر لے۔"
" چھوڑ سب کو' ایک دھماکے دار نیوز ہے میرے پاس۔"
" کیا؟"
" ہماری پچھلی گلی میں آج جانے کتنے دنوں کے بعد چاند نکلا۔" اس نے لہک کے گانے کی کوشش کی ' مگر میڈم نور جہاں کی جگہ عدنان سمیع جیسی آواز سن کر اپنا ارادہ بدل لیا۔
" اصل بات بتا بکواس نہ کر۔"
" آج وہ آ گیا ہے۔" اس نے شرمانے کی ناکام کوشش کی۔
" کون تیرا بھائی جو پچھلے سال انگلینڈ گیا تھا۔" مجھے محسن کی یاد آئی۔ " فٹے منہ بھائی نے عید پر آنا ہے ویسے اس کا بڑا انتظار ہے؟"
" اور نہیں تو کیا آخر میرا منگیتر ہے چاہے کالی بھینس سے کچھ زیادہ کالا ہے۔" میں نے جواب دیا۔
" چل چھوڑ تجھے تو اس میں خامیاں ہی نظر آتی ہیں' میں نے یہ بتانے کے لیے بلایا ہے وہ جو ہمارے گھر سے پچھلے والے گھر میں خالہ رہتی ہیں جن کو کرائے پر گھر دینا تھا وہاں ایک ہینڈ سم اور خوب صورت نوجوان آیا ہے۔ سنا ہے محلے کے اکلوتے اسپتال کا اکلوتا ڈاکٹر ہے۔
پر میں تو ایک جھلک دیکھ کر ہی قربان ہو گئی۔" فہمی نے شرمانے کی ایک اور ناکام کوشش کی۔
" اچھا تو پھر میں کیا کروں۔" میں نے پوچھا۔
" کچھ نہیں بس کسی طرح میری اس سے بات کروا دے۔" فہمی کا لہجہ ہمیشہ کی طرح کام پڑنے پر شہد ٹپکانے لگا۔
" پراں مر میں پڑھنے جا رہی ہوں۔۔۔۔ فہمی کی گھورتی نظروں کو میں نے ایسے نظر انداز کیا جیسے سفارشی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو کرکٹ بورڈ والے کرتے ہیں اور لائبریری کی طرف چل دی۔
گھر کی چھت پر پتنگ بازی عروج پر تھی۔ میری پتنگ نے احتشام کی پتنگ کو جسیے ہی کاٹا میرے منہ سے خوشی کے مارے نا قابل فہم آوازیں نکلیں۔ " یا ہوووو" میرا نعرہ سن کر نیچے سے اماں کی آواز آئی۔
" نی تیرے ابا کی شادی ہے جو چیخیں مار رہی ہے۔"
اماں جی! ابا اب ایک بار سبق سیکھ چکے ہیں دوسری غلطی نہیں کریں گے بقول شاعر اب کے تجدید شادی کا نہیں امکاں اماں" میرے حصے کا جواب ہنیہ نے دیا۔
" تو جا کے اپنے کچھ لگتے عمر اکمل کو دیکھ وڈی آئی احمد فراز۔" اماں کا جواب سن کر ہنیہ کے ساتھ مجھے بھی یاد آیا کہ آج تو پاکستان کا میچ ہے۔ میں چھت سے اترنے ہی والی تھی کہ سامنے نظر پڑی۔
" اوہ ! تو یہ ہیں ڈاکٹر صاحب' بات تو فہمی کی سچ ہے ہینڈسم تو بڑا ہے۔ میں نے سادہ سے کپڑوں میں ملبوس خالہ کے گھر کی چھت پر بیٹھے اس شخص کو غور سے دیکھا۔ " خیر سانوں کی۔"
میچ دیکھتے ہوۓ بھی میرا دھیان بار بار اس کی طرف جا رہا تھا۔ میں سب چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ میری منگنی سولہ سال کی عمر میں محسن سے ہوئی تھی۔ محسن ہمارا رشتے دار تو نہیں تھا' مگر ابا جی کو بہت پسند کرتا تھا۔ محسن پچھلے سال جاب کے سلسلے میں انگلینڈ چلا گیا تھا۔ محسن کا رنگ سانولا تھا' مگر چہرے کے نقوش پیارے تھے اس کے باوجود بے چارہ اکثر میرے مذاق کا نشانہ بنتا۔ ماضی کے دریچوں میں کھوئی نہ جانے کب میری انکھ لگ گئی۔