" میں کیا کہہ سکتی ہوں ہارون۔۔۔" اماں جی نے محسن کے آتے ہی میری تاریخ طے کر دینی ہے اور شاید ایک ماہ کے اندر شادی ہو جاۓ۔"
"فری میری بات مانو گی۔"
" کیا۔۔۔۔" اس کی بات سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔
" مگر ہارون ! میں کیسے کر سکتی ہوں یہ۔"
" کیوں نہیں کر سکتی تم اپنا اچھا بُرا سوچ سکتی ہو اگر نہیں کر سکتی تو میں سمجھوں گا میری اور تمہاری محبت بس ٹائم پاس تھی۔“ وہ یہ کہہ کر چلا گیا لیکن میرے لیے سوچوں کا ایک نیا باب چھوڑ گیا۔
" کیا میں ہارون کے لیے اماں' بھائی' ابا اور ہنی سب کو چھوڑ دوں گی؟ کیا میں بے حس بن کر اپنے باپ کی عزت سے کھیل سکتی ہوں؟ کیا میں گھر سے بھاگ سکتی ہوں ایک ایسے شخص کے ساتھ جس کا اور میرا ساتھ صرف ایک ماہ اور کچھ دن کا ہے۔" دل اور دماغ کی یہ جنگ جاری تھی۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھی بے دھیانی میں کھڑکی سے باہر ہنیہ اور احتشام کی لڑائی دیکھ رہی تھی۔ شاید احتشام کی فیورٹ ٹیم جیت گئی تھی اس لیے ہنیه ہمیشہ کی طرح ہار ماننے کی بجائے بحث پہ اُتری ہوئی تھی۔
" ہنيه' احتشام ادھر آؤ۔" میں نے انہیں بلا لیا۔ نه جانے کیوں مجھے لگ رہا تھا میں ان کے پاس بہت تھوڑے دن ہوں۔
" آپی دیکھیں ہنی آج پھر ہار گئی ہے اور پھر بھی میری شرط پوری نہیں کر رہی۔ " احتشام نے آتے ہی شکایت جڑ دی۔
" آپی اس کی شرط تو سنیں ذرا بقول شاعر پوری کریں تو مر نہ جائیں۔"
" کیا شرط ہے؟" میں نے پوچھا۔
" کہتا ہے شعروں کے حوالے نہ دیا کر۔" مجھے ہنسی آ گئی۔ مجھے ہنستا دیکھ کر دونوں ہی خوش ہو گئے۔ آج جانے کتنے دنوں کے بعد ہم یوں مل کر بیٹھے تھے۔ ان سے باتیں کرنے کے دوران میری نگاہوں کے سامنے ہنی' احتشام اور اماں کے چہرے گھومتے تو کبھی ڈاکٹر ہارون کی مسکراہٹ اور باتیں ذہن میں گھومنے لگتیں۔ آخر میں ایک فیصلے پر پہنچ گئی۔
گھر سے رخصتی کا وقت ہر لڑکی کی طرح میری آنکھیں بھی بھگو رہا تھا۔ اماں جی سے لپٹی ہنی اور احتشام سے گلے ملتے اور ابا جی سے ڈھیر ساری محبتیں لے کر آج مجھے پرائے گھر جانا تھا۔ جہاں ایک شخص
میرے لیے ڈھیروں محبتیں لے کر بیٹھا تھا۔ زندگی کی وہ رات مجھے بھول ہی نہیں سکتی جب ڈاکڑ ہارون کے کہنے پر میں اپنے تھوڑے سے کپڑے لے کر اس کمرے میں پہنچی تھی جہاں وہ رہتا تھا۔ اس نے مجھے دوسری رات کو نکلنے کا کہا تھا مگر یہ سوچ کر آ گئی کہ آج موقعہ اچھا ہے سب جلدی سو گئے ہیں ہم چلے جائیں گے سب سے دور۔ مگر ہارون کے کمرے کا دروازہ کھول کر سامنے جو منظر نظر آیا وہ میری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ ہارون کے ساتھ مکان مالکن خالہ سلمیٰ کی اکلوتی بیٹی شرمناک حالت میں موجود تھی۔ میں نے یہ دیکھ کراپنی چیخ مشکل سے روکی۔ ہارون کی محبت ایک سیکنڈ ختم ہو گئی اور میں واپس اپنے گھر لوٹ آئی۔ میں خدا کی ذات کا جتنی بار شکر کروں کم ہے جس نے میری اور میرے والدین کی عزت رکھ لی۔ شاید اماں کی دعاوں کا اثر تھا۔
محسن کے گھر وداع ہوتے ہوئے یہ سب باتیں میرے ذہن میں تھیں۔ اس گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سوچ لیا تھا' میں اس گھر کو جنت بناؤں گی کیونکہ اس گھرکا مالک مجھے پوری عزت کے ساتھ بیاہ لایا تھا۔