SIZE
3 / 9

بڑے ماموں نے ارشاد جاری کیے۔

" اماں بی پڑھائی میں دعائیں صرف کرنے کے بجائے' رشتوں کے وظیفے شروع کریں۔" بڑی بہو بھی زخم چھیڑ گئیں۔

چھوٹی بہو کا فون بجا۔

" السلام علیکم! جی خان صاحب۔۔۔!" مہذبانہ انداز اپنا کر وہ مجازی خدا کو احترام میں یونہی مخاطب کرتی تھیں!

"جی فیل ہو گئی -۔۔۔۔ لیں اردو' مطالعه پاکستان' اسلامیات تو بچوں کے سبجیکٹ ہیں۔۔۔۔ اوپر لکھ دیا گیا ایز اے ہول۔" وہ بولتی بولتی دور ہوتی گئیں۔۔۔۔اماں بی آخری لفظ پر چونکی۔۔۔۔۔ الجھی الجھی سلجھی تو گنگ رہ گئیں۔

" ہوں کیا اپنی زوبی ہول گئی ہے؟" چہرے پر پریشانی سوا ہو گئی دل غوطہ کھا گیا۔

ماحول پر عجیب سوگواریت طاری تھی۔۔۔۔ سکوت چھا کر الگ بھید پھیلا رکھا تھا۔ ساڑھے دس کے بعد فضا یونہی پر وحشت اور پراسرار سی ہو جاتی تھی۔۔۔۔ جنت بی بڑے اور چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔۔۔۔ یہ گھر ان کے شوہر کی ملکیت تھا۔ اس لیے دونوں اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے کہ ساری زندگی یہیں بسر ہوئی تھی۔۔۔۔ درمیان کے تین بیٹے شادیوں کے بعد اسی کالونی میں آس پاس مگر الگ الگ مقیم تھے۔۔۔۔ بڑے بیٹے کی مارکیٹ میں دکان تھی جبکہ چھوٹا بیرون ملک میں۔۔۔۔ صبح ناشتے سے فراغت پا کر دونوں بہویں اپنے اپنے کام نمٹاتی کمروں میں سماتیں ۔ ایسے میں اماں بی سکوت سے گھبرا کر تنہائی سے بولے جاتیں۔ زوبیہ کو اماں بی سے زیادہ ٹی وی ڈراموں میں دلچسپی تھی لہذا آج کل بکرے سے دل بہلاتی تھیں۔۔۔۔۔ چھوٹی بہو چند لمحے قبل اپنا موبائل پکڑا گئی تھی۔۔۔۔!

" کہو کیسی ہو رابعہ۔۔۔۔ " دوسری سمت زوبیہ کی والدہ تھیں۔

" جیسی تیسی بھی ہوں۔۔۔۔ اپنی سناؤ اماں اور زوبی۔۔۔۔"

"پاس۔۔۔۔ نہیں ہو سکی۔" اماں بی کہہ کر آبدیدہ ہو گئیں۔

انداز

" ہاہ۔۔۔۔" رابعہ بیگم نے سرد آہ بھر کر ماحول یخ بستہ کرنا چاہا۔ ماحول تو جوں کا توں رہا البتہ اماں بی ضرور ٹھٹرگئیں۔

" ہماری قسمت ابھی دور کھڑی ہے۔" وہ کہہ رہی تھیں۔ "میں نے سوچا تھا کے میٹرک کر لے تواسلام آباد بھجوا دوں گی۔۔۔۔۔ پڑھ لکھ لے گی تو کسی اچھی جگہ شادی کر دوں گی مگر۔۔۔۔ جانے غلط کہاں رہ گئی میں۔" دوسری طرف وہ بھی

غم زدہ تھیں۔۔۔۔ اماں بی ناگواری سے ٹوکا۔

"خوب۔۔۔۔ جوان جہاں لڑکی کو اسلام آباد بھیجنے کے خواب۔۔۔۔۔ میں کہتی ہوں ہوش کے ناخن لو خاتون' یہاں میں بیٹھی ہوں زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھتی ہوں وہاں کون ہو گا؟ خدا کا واسطہ سے لڑکی کا دماغ خراب مت کرو۔" ان کے چہرے پر بد مزگی پھیل گئی تھی۔۔۔۔۔ رابعہ بیگم بھیگی آواز خشک کرتی رہیں۔

"چھوٹا ماموں کیا کہتا ہے ؟" انہوں نے بھائی کا پوچھا اماں بی آنکھیں رگڑ رہی تھیں۔

" کچھ کہہ رہا تھا زوبیہ روتی رہی۔۔۔۔ بے چاری تین دن سے کھانا نہیں کھا رہی ۔۔۔۔ دل بہلانے کو میں نے کہا عید کے کپڑے لے آؤ بے چاری بڑی دل گرفتہ ہے۔۔۔۔ دوسرے رشتے داروں کے مذاق الگ دل جلاتے ہیں۔۔۔۔ غلطی تو اس کی اپنی ہے' پھر بھی مجھ سے اداسی دیکھی نہیں جاتی۔" کچھ تلخی سے کہہ کر وہ معصومیت سے مجبوری بتا گئیں۔۔۔۔ زوبیہ کہیں سے نکل کر بکرے کے سامنے کھڑی نظر آ رہی تھی!

”اچھا اماں۔۔۔۔ خدا خیر کرے گا۔ زوبیہ کے مستقبل کا سوچیں' میٹرک فیل کو کوئی نہیں بیاہے گا' میں بات کروں گی اس سے۔۔۔۔"

" جو کرنا ہے کرو خاتون۔۔۔۔ میں تو تھک سی گئی ہوں' طبیعت پر الگ قنوطیت سی چھائی رہتی ہے ۔۔۔۔۔ اے دانی! آ پتر چاچی کو فون پکڑا آ۔۔۔۔۔" بے زاری سے کال کاٹ کر انہوں نے دبے قدموں سامنے سے گزرتے دانیال کو آواز دی وہ منہ بناتا اندر آیا۔

"اے رک۔۔۔۔ ذرا بیٹھ یہاں۔" انہوں پاؤں سمیٹ کر جگہ بنائی تو وہ بے چاری سی شکل بنا کر بیٹھ گیا۔

" وہ آتی ہے کیا۔۔۔۔ کیا نام ہے موئی کا۔۔۔!"

" نہیں دادی۔۔۔۔ علیشا تو بالکل نہیں آتی۔" دانی کا خون خشک ہوا ۔۔۔۔ جنت بی نے دانت کچکچا کر پشت پر دو ہتھڑ جڑے۔