SIZE
2 / 9

" آپ ہی کا تو منہ نظر آتا رہا اماں بی۔۔۔۔ لیکن میں کیا کروں میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔۔۔۔۔ بہت بڑی زیادتی جانے کس منحوس نے میرے پیر چیک کیے' مگر میں بتاۓ دیتی ہوں اماں بی۔۔۔۔ میرے ساتھ دشمنی نبھائی جا رہی ہے' مجھے زچ کرنے کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔"

" یوں بھی ہوتا ہے کیا۔۔۔"

" اماں بی ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔ یہ شرمندگی مٹانے کو بول رہی ہے۔" چھوٹی بہو نے ناک بھوں چڑھا کر ساس کی غلط فہمی دور کی۔

" یقین کریں مامی۔۔۔ ورنہ بائیو میں آٹھ نمبر ریاضی میں چودہ اور'اور میں کہہ رہی ہوں کہ یہ تو پچھلی بار سے بھی کم آۓ ' حالانکہ اس بار تو محنت بھی پہلے سے بڑھ کر کی۔"

" ہاں اسٹار پلس کے ڈرامے دیکھ کر۔" زوبیہ نے سن کر تاؤ تو بہت کھایا۔۔۔۔ مگر حالات کے تقاضے کہتے تھے کہ چپ رہے۔۔۔۔ چھوٹی مامی یوں بھی کوئی خاص پسند نہیں تھی اسے۔

چچی۔۔۔۔ خیرسے کتنوں میں فیل ہے؟" بڑی بہو کے دانیال(بیٹے) نے اشتیاق سے سوال کیا۔ جوابا ان کا منہ بگڑا۔

" چاروں میں۔" اشارہ سائنس مضامین تھے۔

" کیا کہا ساروں میں۔۔۔۔؟" دانی کے لقمے پر وہ تڑپ کر مڑی۔ آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ چبا چبا کر بولی۔

" کیا بہرے ہوۓ ہو رضاۓ الہیٰ سے۔۔۔۔ چار کہا چار۔"

" فیل ساروں میں ہو یا چاروں میں فیل ہی ہوتا ہے۔" دانی نے چڑایا۔ چچی نے سر ہلایا۔۔۔۔ اماں بی کے دل نے دوبارہ تڑپ کھائی۔

" سوچا تھا بن ماں باپ کی بچی ہے۔۔۔۔ پڑھا لکھا کر کسی نوکری میں اڑا دوں گی تو جہاں بھی رہے گی بھوکی تو نہ مرے گی۔۔۔ سارا سال اس سے کھٹڑے تڑواۓ۔۔۔۔ کپڑا کھانا ہاتھ میں دیا مگر سب بے کار۔۔۔ اب پرچے دے دے کر سر سفید کر دے گی۔" وہ سخت مایوس تھیں۔۔۔۔زخم زخم سی زوبیہ جو خفت زدہ کھڑی تھی کرنٹ کھا گئی۔

" اب نہیں دوں گی۔۔۔ مر جاؤں گی مگر اپنے لکھے کو ان کے سامنے رکھ کر اپنی نا قدری برداشت نہیں کروں گی۔۔۔۔ اب کریں مجھے فیل شوہدے کہیں کے۔۔۔۔ سارے جگ سے منہ چھپاتے پھریں گے' بھوک ہڑتال کر کے ایسی ایسی دعائیں مانگوں گی کہ کہیں کا نہ رہنے دوں گی مگر ایک بات طے کر لی میں نے'انہیں ایک بار پھر اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔ زوبیہ خان کو فیل کرنے کی حسرت لیے لیے مر جائے گا موا چیکر۔۔۔۔ ہاں۔" قطعیت سے کہتے ہوۓ وہ اس وقت خود سری کی انتہا پر کھڑی لگ رہی تھی۔۔۔ اماں بی کی آنکھیں لفظ " چیکر" پر پھیل کر کنپٹیوں تک چلی گئی تھیں۔

" کس۔۔۔۔ کس انگریز کا نام لے گئی ہے تو کلموہی۔۔۔۔ یہ' یہ ساری منحوسیت اسی کی ہو گی پھر۔۔۔۔ بتا مجھے کیسے جانتی ہے اسے۔" جلال میں ہانپتے ہوۓ ان کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا۔ دانیال دانت نکوسنے لگا۔ کود چھوٹی بہو بھی سٹپٹائیں! " وہ پیپر پڑھنے والے کو کہہ رہی ہے اماں"۔ بات سنبھلی۔

" ہاۓ۔۔۔۔ اب کس کس کو کوسنا۔۔۔۔ نیٹ پہ نتیجہ آتا ہے' سب دیکھ دیکھ کر مذاق اڑائیں گے۔۔۔ دو بار ناویں میں فیل اور اب دسویں میں بھی۔۔۔ میں کبھی چین سے نہیں سو پاوں گی کہن کرے گا میٹرک فیل سے شادی۔۔۔۔ اے بہو میٹرک ہوتا ہے نا؟" روتے روتے ان کو خیال آیا۔

" جی' جی اماں۔۔۔۔" بہو نے تسلی دی۔

" دادی جی! زوبیہ اتنا کہہ رہی ہے تو مان کیوں نہیں لیتے۔۔۔۔ ہم پیپر ری چیک۔۔۔ مطلب جا کر چیک کر سکتے ہیں' جھوٹ کا جھوٹ اور سچ کا سچ ہو جائے گا۔" مزے لیتا دانیال ہی ایسا مشورہ دے سکتا تھا۔ دادی جی پوتے (لائق فائق) کی معلومات پر صدقے واری ہوئیں۔۔۔۔ وہیں زوبیہ کی سٹی گم ہو گئی۔ چلو جی ایک اور شرمندگی ۔۔۔۔ دوباره بدنامی!

" رہنے دیں اماں بی۔۔۔۔ بے ایمانی کی جیت اس جہاں میں ہو لینے دیں۔۔۔۔ میں سنبھل جاؤں گی۔۔۔۔ ری چیکنگ میں پیسے لگتے ہیں' ٹائم ضائع۔۔۔۔ اور ہونا بھی کچھ نہیں!"

اس کے منمنانے پر لالی اماں بی سیدھی ہو گئیں ٹائم ضائع ہوتا رہے ان کی بلا سے مگر پیسوں والی بات پر ارادہ بدل گئی تھیں۔۔۔۔!

" چلومیں نماز پڑھ آوں شرمندہ کرا کے رکھ دیا۔"