SIZE
4 / 9

" یہ تو زین کا پرسنل میٹر ہے' آپ کو اس سے ڈسکس کرنا چاہیے تھا۔"

وہ شاید جلد اٹھنا چاہتی تھیں۔میں ان سے پوچھ چکی ہوں لیکن آپ کے خیال

میں۔" وہ کافی دیر تک سوچتی رہیں۔

" کوئی لڑکی۔ کوئی محبت وغیرہ کا چکر؟" میں نے پوچھا۔

" نہیں ' ایسی توکوئی بات نہیں بلکہ یوں کہیں کہ لڑکیوں سے بھاگتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی سے مطمئن نہیں ہوتا۔ چار منگنیاں کر کے توڑ چکا ہے۔ بلاوجہ ہی وہ اچھی لڑکی اسے بری لگنے لگتی ہے۔ سب ہی اس کی ان عادتوں کی وجہ سے اپ سیٹ ہیں بلکہ آج کل تو وہ خود بھی پریشان ہے۔"

میں اس کی بیماری کی تشخیص کرنے میں آہستہ آہستہ کامیاب ہو رہی تھی۔

" یہ کوٹھی کتنی پرانی ہے؟" میں نے پوچھا۔

" یہ تقریبا ڈیڑھ سال پرانی ہے اور یہ پہلی دفعہ ہے کہ ہم کسی کوٹهی میں ڈیڑھ سال رہے ہوں' زین اکتا جاتا ہے کہ کیا ایک جیسے رہتے ہیں' وہی کمرے' وہی لان ' وہی کاریڈور۔ ہر تین ماہ کے بعد سارا پینٹ بدلواتا ہے اور ڈیکوریشن ہر دوسرے ہفتے۔"

ان کے لہجے سے بے زاری نمایاں تھی۔

" بلکہ کبھی تو لگتا ہے جیسے مجھ سے بھی اکتا گیا پھر میں اپنی بیٹی کے ہاں لاس اینجلس چلی جاتی ہوں۔ ہر چھ ماہ بعد نوکر بدل ڈالتا ہے' پلیز اسے ہولڈ کریں۔ اسے نارمل ہونا ہے میرے لیے۔ اس گھر کے لیے' وہ خود اپ سیٹ ہے۔" ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

" ٹیک اٹ ایزې۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ "

بظاہر بہت چھوئی بیماری تھی لیکن جونک کی طرح لگی تھی اور خود زین العابدین کو تو کیا بلکہ ارد گرد کے سب لوگوں کو پریشان کر رکھا تھا۔ میں پریس اٹھ کر باہرنکل آئی۔

آہستہ آہستہ میں اس کی بیماری پر قابوپاتی جا رہی تھی۔ عجیب مقناطیسی آنکھیں تھیں اس کی بہت زیادہ توجہ اور نرم رویے کی وجہ سے دوسرے بہت سے مریضوں کی طرح وہ میری طرف مائل ہو رہا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ دوسرے مریضوں کی طرح میں اسے نظر انداز نہیں کرپا رہی تھی۔ بلکہ ڈسٹرب تھی۔ کلینک سے واپس آتے ہوئے میں نے گاڑی سر ہمدانی کے گھر کی طرف موڑ لی۔ جانے کس بے چینی کی دوا چاہتی تھی۔ سر ہمدانی لان میں ہی اخبار پھیلائے بیٹھے تھے۔

" السلام علیکم سر!"

" وعلیکم السلام۔“ انہوں نے سر اٹھایا۔ آؤ۔ آؤ آج کیسے ٹائم نکال لیا۔"

" بس سر۔" بہت دن بعد آنے پر میں شرمنده ہو گئی۔

" کیسا جا رہا ہے مشن؟" سر پوچھ رہے تھے۔

" بہت اچھا سر ہمیشہ کی طرح اچھا۔" میرے لہجے میں سکون اتر آیا۔

" آپ کیسے ہیں سر؟"

" خدا کا بہت شکرہے۔" ہمیشہ کی سی عاجزی ان کے لہجے میں عود کر آئی تھی۔

" ایسے لوگ بھی ہیں جو'سچے' ہیں ۔ میں نے سوچا۔

" اتنے بڑے گھر میں آپ کیا تنہا ہوتے ہیں سر؟" میں نے کاٹیج کے چاروں طرف پھیلے سناٹے سے ہوکتے ہوئے درودیوار پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

" تنہا۔" سر ہمدانی مخصوص مسکراہٹ سے چہرا سجاتے ہوئے بولے۔ ”اللہ کی ذات پر انحصار کرنے والا کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ لگتا ہے جیسے ہمارے وجود میں موجود روح کے ساتھ اور بہت سی محفلیں جمی ہیں۔ ہر وقت شکر' ہر حال میں شکر' اللہ کی ذات شكر سے اور قریب آ جاتی ہے۔"

سر ہمدانی وجد کی کیفیت میں بولے۔

" سر!لیکن یہ 'شکر' بہت مشکل ہے۔ شکر قربانی مانگتا ہے۔ اور قربانی ہنسی خوشی دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔"