میری بات پہ سر ہمدانی تھوڑا مسکرائے۔ " دیکھونا! کومل بیٹے ہم جتنا کچھ کر رہے ہیں اللہ کی رضا کے لیے۔ اور یہ بھی شکر کا ایک طریقہ ہے۔ ہمارے سامنے ایک مشن ہے ' اس مشن کو ہم نے ذات کی قربانیاں دے کر چلا رکھا ہے۔ یہ مشن اگر ہم آئندہ نسلوں تک منتقل کر دیں گے تو یہ ہمارے شکر اور قربانی کی ایک بڑی مثال ہے۔"
" یس سر! بالکل میرے لیے بھی دعا کرتے رہیں کہ میں ساتھ دے پاؤں۔"
" آمین۔ آمین!" سر ہمدانی کے لب ہلے اور مجھے لگا جیسے واقعی اللہ قبول کر رہا ہے۔
سر ہمدانی کی آواز میں ایک تاثیر تھی۔ ان کے پاس پڑھنے والے بہت سے اسٹوڈنٹس ایک مشن لے کرنکلے تھے۔ آفاق رضوی کہتا تھا کہ " میرے بس میں ہو تو ایک ایک ابنارمل شخص کو پکڑ پکڑ کر لاؤں اور ایک دن وہ ہو کہ دنیا اعتماد اور خلوص سے جینا سیکھ جائے۔" وہ خود بھی واقعی جینے کا ہنر جانتا تھا۔ ہر وقت ہنسنے اور مسکرانے والا یہ شخص بہت سے ادارے ایک ساتھ چلا رہا تھا۔ سرہمدانی کی گائیڈنس میں "مشن کلینک" خاص طور پر قابل ذکر تھا جو ہم سب بغیر معاوضہ لیے چلا رہے تھے۔ بغیر لمبی چوڑی فیس کے۔ ہم غریب منشیات کے عادی لوگوں کو نفسیاتی طریقوں سے اس عذاب سے نجات دلا رہے تھے۔ ہم لوگ ہر قسم کی تھراپی (علاج) اس مریض پر آزماتے۔ تحلیل نفسی یعنی PSYCHOANALYSIS (کہانی اور واقعات پوچھ کر علاج کرنا) میں' میں ماہر تھی جبکہ فرح شاہنواز ہپنا ٹزم میں ماہر تھی۔ آفاق رضوی نے PSYCHODRAMA (یعنی ڈرامر کر کے علاج کرنا) کی سیٹ سنبھال رکھی تھی۔ زارا بلوچ اور ہمایوں اکبر نے کنڈیشنگ اور لرننگ کے زریعے طریقہ علاج اپنا رکھا تھا۔ ہمارے ساتھ فضہ رحمان' فہد حسن اور حمزہ محسن بھی تھے۔ دو دو گھنٹے کی ڈیوٹی ہم "مشن کلینک" میں دیتے۔
ہم سب غریبوں کا نہ صرف مفت علاج کرتے بلکہ اپنی اپنی بساط بھر مالی امداد بھی کرتے۔ اس مشن میں ہم اکیلے نہیں تھے، شہر کے بڑے امرا اور نیک سیرت رؤسا کے بھی مرہون منت تھے۔ تھراپی کے کسی بھی
طریقے کے باوجود اگر مریض باربار بھٹک جا تا تو ہم اسے سر ہمدانی کی فیلڈ میں لے جاتے جو۔ SPIRITUALMETHODS (روحانی طریقہ علاج) سے مریض کو اس عذاب سے نجات دلاتے۔ ہمایوں اکبر ہنستا تھا " اگر ابلیس بھی ہمارے مشن کلینک میں آ جائے تو اتنی بھٹیوں سے گزر کر کندن بن جاۓ اور عزازیل بن کر اپنی وہی گدی سنبھالے۔
سر ہمدانی نے سنا تو جواب دیا۔ ”وہ اللہ کا دھتکارا ہوا ہے۔ اور الله کا دھتکارا ہوا مشن کلینک کے نزدیک نہیں پھٹکتا کیونکہ اللہ نے اس کی ڈور ڈھیلی کر رکھی ہے!"
کبھی کبھی بابا اور ماما کے درمیان کی خاموشی سے مجھے بہت ڈر لگتا۔ جانے کیسی گره بندھی ہے' دونوں کے ذہن میں جو کھل کر نہیں دیتی۔ بظاہر بہت نارمل لیکن بہت سرد مہری۔ آخر یہ آپس میں ایک ہی بار لڑ کیوں نہیں لیتے' اپنی اپنی جگہ دونوں مجھے بہت ٹائم دیتے ۔ شاید میں ہی ان دونوں کے تعلق کی ایک کڑی تھی۔ جب سے میں نے ذاتی کلینک کھولا تھا۔ میں نے بھی ان کے بارے میں سوچنا کم کردیا تھا۔ چھتیس سال ان کے متعلق آگاہی نہ ہونا میرے لیے مسئلہ پیدا کر دیتا لیکن اب میری اپنی مصروفیات تھیں' چائے کے ہلکے ہلکے سپ لیتے ہوئے میں سوچتی جا رہی تھی۔ ٹائم دیکھ کر میں اٹھ کھڑی ہوئی۔
مسلسل ایک ماہ اور دو ہفتوں کے علاج سے زین العابدین کو "ماڈیزرم"(خانہ بدوشی' ایک جگہ پر نہ ٹهہرنا) جیسی بیماری سے نجات مل گئی تھی لیکن پھر بھی اس کا اسی روٹین سے کلینک آنا میری سمجھ سے بالاتر نہیں تھا۔ میں خود بھی اس کا انتظار کرتی۔ جب تک میں کسی سبجیکٹ یہ کام کرتی تھی وہ افس میں بیٹھا میرا انتظار کرتا۔ میں اب ایمچور نہیں تھی بلکہ چھتیسں سالہ ماہر نفسیات کومل حسین تھی۔ لیکن جانے کیا تھا یہ سب؟