سر ہمدانی اللہ کے محب اور رسول اللہﷺ کے عاشق' سفید ریش' سرخ و سفید رنگت۔ سادہ شلوار سوٹ پہ سفید واسکٹ پہنے' عام دیکھنے والا بھی اچھا تاثر لے کر جاتا تھا۔ سیمینار سے واپسی پر میں یہی سوچتی رہی کہ شاید ایسے اچھے لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا قائم ہے۔
زین العابدین شاہ پہ میں تقریبا ایک ہفتہ سے کام کر رہی تھی مگر وہ بہت مشکل تھا۔ کوئی سبجیکٹ اس وقت مشکل ہو جاتا ہے۔ جب وہ کھلنا نہ چاہتا ہو اور علاج بھی چاہتا ہو۔ اس روز بھی اس کے آفس سے اس کے بارے میں پتا کرنے آئی ایک کافی عمر رسیدہ کارکن نے پوچھنے پر بتایا۔
" شاہ جی ایک نیک سیرت بزنس مین ہیں۔ دولت میں بہت زیادہ انٹرسٹد نہیں ۔ آپ اس بات سے دولت سے عدم دلچسپی کا اندازہ لگا سکتی ہیں کہ انہوں نے تقریبا پندرہ فیکٹریاں لگائیں اور آج تک مکمل حساب نہ لینے کی وجہ سے خسارا ہوا اور انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔"
پھر ان کے ایک خاص کارکن نے بتایا۔
" اصل میں شاہ جی کسی ایک بزنس میں انٹرسٹڈ نہیں۔ اگر وہ کسی ایک بزنس پہ بہت سا پیسہ لگا کر کام چلاتے تو بزنس بہت کامیاب رہتا لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ ہر سال ایک فیکٹری لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں جس سے نا صرف وہ پریشان بھی رہتے ہیں بلکہ ورکرز کو بھی ڈسٹربنس ہوتی ہے۔ حالانکہ رحم دل اس قدر ہیں کہ پچھلی فیکٹری کا اگر کام ٹھپ ہو جائے تو اگلی نئی فیکٹری میں ورکرز کو لے آتے ہیں۔ لیکن ایک جگہ ' ایک بزنس پہ نہ ٹھہرنے کی وجہ سے نہ صرف ہم پریشان ہوتے ہیں بلکہ ان کا کاروبار اور پیسہ اور سب سے بڑی قیمتی چیز وقت بھی برباد ہوتا ہے۔"
زین العابدین کی سیکریٹری نے ہنستے ہوئے بتایا۔
" آپ ان کی تھرلنگ کا اندازہ اس طرح لگائیں کہ اس فیکٹری کو دو سال ہوۓ ہیں اور میں یہاں ان کی دسویں سیکریٹری ہوں۔"
مجھے اس کی اصل بیماری کا اندازہ ہو چلا تھا اس کی انگزائٹی کی وجہ میری سمجھ میں آ گئی تھی۔ اس حساب سے میرا یہ سروے کامیاب رہا تھا۔ میں نے ـــــــــ اس کی کر سیکریٹری سے لیے ہوئے گھر کے ایڈریس پر گاڑی کا رخ کیا۔ سفید ماربلز سے بنی اس محل نما عالی شان عمارت کے سامنے میں نے گاڑی روک کر اس کے بڑے گیٹ پہ بیل دی۔
با وردی ملازم نے گیٹ کھولا۔ گاڑی گیراج میں چھوڑ کر اس کے پیچھے پیچھے چلتی ڈرائنگ روم میں چلی آئی۔ ''
ہر چیز سے امارت اور نفاست ٹپک رہی تھی۔ بہت سلیقے سے سنورا یہ ہال نما ڈرائنگ روم کسی عورت کا کمال لگ رہا تھا۔ جبکہ زین العابدین کے بقول وہ میرڈ نہیں۔ شاید کوئی بہن وغیرہ۔ میں ہر چیز کو گہری نظر سے دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی ۔
کافی دیر کے بعد بہت نفاست سے سجی سنوری ایک بھاری بھر کم خاتون پردوں کے پیچھے سے نمودار ہوئیں۔
" ہیلو۔" بہت غور سے مجھے دیکھتے ہوئے تفاخر سے کہا گیا۔
" جی السلام علیکم ۔" میں کھڑی ہو گئی۔
" بیٹھیے۔" وہ مخاطب ہوئیں۔
" میں ماہر نفسیات کومل حسین ہوں۔ زین العابدین صاحب کا علاج کر رہی ہوں۔ میں بیٹھتے ہوۓ بولی۔
" اوہ اچھا۔ مگر آپ تو بہت چھوٹی ہیں۔ اسے کسی بڑے ماہر نفسیات کے پاس جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے نخوت سے ناک سکیڑی۔
" آپ غالبا؟" میں نے بات بدلتے ہوۓ کہا۔
" میں زین کی بہن ہوں سیما قریشی۔ اس کے ساتھ رہی ہوں۔" میری بات کاٹ کر جواب دیا گیا۔
" شاید سب ہی کنوارے ہیں۔" میں مسکرائی ۔ میری رگ شرارت پھڑکی لیکن چونکہ بقول سیما قریشی صاحبہ کے میں ابھی چھوٹی تھی اس لیے مزید مسکرانے سے میں نے خود کو روکا۔
" زین صاحب نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی۔ کوئی خاص وجہ ؟" میں اصل ٹاپک کی طرف آئی۔