SIZE
2 / 9

" وعلیکم السلام۔ آؤ بھئی آؤ۔ آج تو کافی دنوں کے بعد یہ فرح۔ یہ آفاق اور کومل سارے اپنے بچے ہی ادھر مل گئے۔"

سر نے ہنستے ہوئے پیچھے ہو کر صوفے پر میرے لیے جگہ بنائی۔ افاق رضوی سے سلام لیتے ہوئے میری نگاہیں سامنے کھڑے زین العابدین شاه پر جا رکیں۔ گرے تھری پیس سوٹ میں سگار ہاتھ میں لیے ہنستا ہوا وہ مسز سلیمان ملک سے مخاطب تھا۔ اس کے چہرے پر کسی ابنارملٹی کی کوئی لکیر نہ تھی۔

" ڈپلومیٹ۔" میں مسکرائی۔

" اور بیٹے! "مشن" کیسا جا رہا ہے؟"

" آپ کی دعاؤں سے بہت اچھا سر۔ آپ کی گائیڈنس اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔"

میں نے پر عزم لہجے میں کہا۔ مجھے سر ہمدانی کی کلاسز یاد آ گئیں' جب وہ ہمیشہ اس بات پہ کلاسز ختم کرتے تھے کہ " ہمیں ہر روز خود سے یہ وعدہ لینا ہے کہ ہم نے سائیکالوجی کو بزنس یا شہرت کی کوئی سیڑھی نہیں بنانا۔ اس شعبے کو ایک معزز اور فرسٹ کلاس شعبے کے طور پر سامنے لانا ہے۔ اے پروفیشن نہیں بلکہ " مشن" بنانا ہے۔ ہمیں "قارون" نہیں بننا ہمیں "ابراہیم بن ادھم" بننا ہے۔" ان کا میٹھا اور پر شفقت لہجہ آج بھی میری سماعتوں میں روز اول کی طرح زنده ہے۔

سر ہمدانی اسٹیج پر براجمان تھے۔ آفاق رضوی۔ فرح اور میں نے اپنے اپنے لہجے میں سر ہمدانی کی دی گئی تعليم و تربیت کے زیر اثر تقاریر کیں۔ میں نے انفرادی قوت پر زور دیتے ہوئے کہا۔

" بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام میں ہر شخص کا انفرادی طور پر حصہ لینا بہت اہم ہے ماں اگر بچے کو غلط رستے پر دیکھتے تو صرف مارنے جھاڑنے سے کام نہیں بنتا بلکہ وہ اس کا نفسیاتی تجزیہ کرے کہ اگر بچے نے کوئی چیز چرائی یا کوئی برا فعل کیا تو آخر کیوں؟ اس کے علاوہ اگر ماں پڑھی لکھی نہیں اور غریب ہے تو اسے چاہیے کہ وہ شروع سے اسے عادت ڈالے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو برا جانے' اسے خودداری کا سبق سکھاۓ۔ل حلال رزق کی عادت ڈالے اور حرام کمانے والوں کو بے غیرت اور برا کہے توبچہ اچھا تاثرلیتا ہے' ہمارا آج ہی ہمارا کل ہے۔ آج کا بچہ کل کا جوان ہے۔"

آخر میں سرہمدانی کو مائیک دیا گیا۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ ایک آواز تھی کہ خوشبو' یہاں سے وہاں تک پھیلتی چلی گئی۔

" محبت' محبت سے ہم وہ کر سکتے ہیں جو نمرود نہ کرسکا۔ فرعون، ہامان نہ کر سکے۔ محبتیں ہمارے پیغمبروں اور اولیائے کرام کی میراث ہیں اور ہمارے لیے صراط مستقیم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے سامنے کسی انگریز فلاسفريا لا مذہب سائیکالوجسٹ کی ریسرچ نہیں بلکہ ہمارے سامنے محبتوں کے سب سے بڑے امین اور انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار حضورﷺ کی حیات مبارکہ ہے' ہمیں ان کے نقش پا په چلنا ہے۔"

سر ہمدانی بڑی روانی سے بول رہے تھے۔

" مجھے امید ہے۔ آس ہے' اس روز کی جب " خوف" کی جگہ " محبت"

لے لے گی۔ جب جینے کا خوف ' مرنے کا خوف' رونے ہنسنے کا خوف ' یہ اعصابی تھکن' یہ دباؤ ختم ہو گا۔ اسلحہ کی جگہ محبتیں لے لیں گی'

ہمیں محبت سے لوگوں کو اچھی راہ دکھانا ہے ' ہم میں سے کچھ کو اگلی صف میں آنا ہے' قربانیاں دے کر۔ آج کی سب سے بڑی نفسیاتی بیماری ”خوف" ہے آج کا انسان "خوف" کے زیر اثر ہے۔ رو رہا ہے ' پریشان ہے 'چیخ رہا ہے لیکن اس جال سے نکل نہیں پا رہا۔ پیچھے رہ جانے کا خوف' غربت کا خوف' دولت چھن جانے کا خوف' یہ خوف ہی بڑھتے ہوۓ جرائم کا اصل ذمہ دار ہے۔ اس خوف سے یاد خدا اور خدا کی طرف جانے والی ہر راہ ہمیں نجات دلا سکتی ہے۔"