SIZE
1 / 9

میں کلینک سے جلد ہی اٹھ آئی تھی کیونکہ شام میں مجھے ایک سیمینار میں شرکت کرنا تھی۔ یہ سیمینار "بڑھتے ہوئے جرائم کا ذمہ دار کون؟" کے موضوع پہ منعقد ہو رہا تھا۔ جس میں مجھے ایک سائیکاٹرسٹ کے حوالے سے مدعو کیا گیا تھا۔ ڈرائیو کرتے ہوئے میری نگاہیں سڑک پہ کار کی اسپیڈ سے تیز بھاگ رہی تھیں۔ کلینک سے گھر تک کا آدھ گھنٹے کا سفر میں نے ان کے سبجیکٹ (مریض) کے متعلق سوچتے ہوئے گزارا۔

اس قدر ڈیسنٹ اور باوقار پرسنالٹی رکھنے والا یہ شخص کسی طور ابنارمل نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے اپنی سوالیہ نظریں اس کے چہرے پہ گاڑ دیں۔

میری نگاہوں کا مفہوم سمجھتے ہوئے وہ تھوڑا مسکرایا۔ اور قریب پڑے صوفے میں دھنستا ہوا بولا۔

" آج فون پہ آپ سے میں نے ہی ٹائم لیا تھا۔"

" اوہ! " میں نے ہونٹ سکوڑے۔

اس قدر ڈیسنٹ شخص میں کہاں کمی رہ گئی۔ میں نے ہمیشہ کی ہمدردی سے سوچا۔

" آپ غالبا زین العابدین شاہ ہیں۔ مجھے یاد آیا ' صبح گھر پہ اسی نام کے شخص نے مجھ سے بات کی تھی۔

" کہیے ٹھنڈا کہ گرم؟" اس نے مسکرا کر پوچھا۔ یہ ایک سائیکا ٹرسٹ کے اخلاق کا تقاضا تھا۔

" نو'نوتھینکس۔ بس آپ میرے ذہن کو اس عذاب سے نکال دیں۔" اس کے چہرے پر ابنارملٹی کے رنگ اتر آئے۔

" ایزی۔ ایزی۔ سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ بشرطیکہ آپ خود ساتھ دیں۔" میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔

" ظاہر ہے اگر میں یہاں تک آیا ہوں تو جہاں تک ہو سکے کا تعاون کروں گا۔"

سگار مسلسل منہ میں دبائے اس نے کہا۔ گیٹ پر پہنچ کر میں نے زور سے ہارن بجایا۔ شاہ زمان کاکا خلاف توقع مجھے دیکھ کر بھاگتا ہوا گیٹ کھول کر میری طرف لپکا۔

" سلام صاحب! آج کیا بات ہوا صاحب' کھیریت ( خیریت) تو ہے نا؟"

" کوئی بات نہیں شاہ زمان آج ایک تقریب میں جانا تھا۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

" تم ٹھیک ہونا!" میں نے حسب معمول پوچھا۔

" اللہ کا شکر ہے، شکر ہے۔" وہ کہتا ہوا پیچھے ہٹ گیا' میں نے بریک سے پاوں ہٹاتے ہوئے گاڑی کو گیراج میں لا کھڑا کیا۔

حسب معمول ماما اور بابا اپنی اپنی ایکٹیوٹیز میں گم تھے۔ بابا بزنس کے سلسلے میں پیرس اور ماما کسی ادبی محفل میں گئی ہوئی تھیں۔ غسل کے بعد چائے اور کیک لینے کے بعد میں نے گاڑی " النور ہوٹل" کی طرف موڑ لی۔ سیمینار میں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ دیئے گئے ٹائم سے میں پورے پانچ منٹ لیٹ ہوں اورمجھ سے زیادہ پنکچوئل لوگ یہاں مقررہ وقت سے پہلے پہنچ چکے ہیں۔

یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر جناب ایم ایچ حمدانی گیسٹ کے طور پر بلاے گئے تھے۔ فرح ان سے باتیں کررہی تھی۔ میں اسی طرف چلی آئی۔

" السلام علیکم سر۔" میں نے جھک کر سلام کیا۔