" بس دعا کرو' میرے عدیل کے لیے بھی کہیں اپنوں میں ہی بات بن جاۓ۔" تائی کی بات پر شفق اور عدیل کی نظریں ملی تھیں اس کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھرے تھے' وہ ان کی بات کا کچھ اور ہی مطلب سمجھی تھی ' عدیل کو اس کی خوش فہمی پر ہنسی بھی آئی اور دکھ بھی ہوا کیونکہ امی کے نزدیک اپنوں سے مراد صرف ان کے میکے والے تھے۔
" ضرور' آپ بھی میری شفق کے لیے دعا کیجیے گا بھابی' میرے اپنوں میں تو ایک بھائی بھابی ہیں مگر بھابی اپنے بیٹے کا رشتہ اپنی بہن کے ہاں کرنا چاہتی ہیں ' انہیں اس غریب نند کا خیال نہیں آیا ۔ میں قادیا کہ میرے عمل کے لیے کا اپنوں کی بات کی جائے۔ ا یسے میں شفق کا رشتہ غیروں میں تلاش کرنا ہے ہمیں۔ بس آپ دعا کیجیے گا۔" عذرا نے ڈھکے چھپے لفظوں میں وہ کہا جو وہ کہنا چاہتی تھیں مگر وہاں شاید وہ سمجھ نہ سکیں۔
" ہاں ہاں یہ ذرا صبا اور عدیل کے کام سے فارغ ہو جائیں تو دونوں مل کر تلاش کریں گے لڑکا' ہماری شفق میں کوئی کمی تھوڑی ہی ہے۔" وہ لاڈ سے بولیں اورعدیل ماں کی نا سمجھی پر کڑھ کر رہ گیا۔
شام ڈھل رہی تھی' آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے گہرے ہو رہے تھے' دیکھتے ہی دیکھتے کالی گھٹا چھا گئی تھی۔ مغرب سے ذرا پہلے ہی رات کا سا سماں ہو گیا وہ جلدی جلدی تائی کے دھلے کپڑے چھت سے اتار کر نیچے اتر رہی تھی جب عدیل سے ٹکرا گئی' اس کے وجود سے اٹھتی خوشبو کو محسوس کر کے دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں ۔ اس نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں' عدیل نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کر لیا تھا ' وہ کپڑے اٹھانے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ بجلی بڑے زور سے چمکی تھی' اس نے خوفزدہ ہو کر آنکھیں میچ لی تھیں۔
" یہ ماں باپ اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں ' اپنی نازک معصوم اور چڑیا جیسے دل والی بیٹیوں کو غیروں کے حوالے کیوں کر دیتے ہیں ۔" اس لمحے اس کے خوف زدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے عدیل کے دل میں عجیب سا خیال ابھرا۔
" تمہیں ابھی بھی بادلوں کی گرج سے ڈرلگتا ہے شفق ؟"
وہ جانتا تھا وہ بچپن سے ڈرتی تھی۔
" ہوں۔۔۔۔۔ بہت۔۔۔۔۔ امی کہتی ہیں بہادر بنو ' اگلے گھر میں سب مذاق اڑائیں گے
میں کیا کروں مجھے آسمانی بجلی سے اتنا خوف آتا ہے۔" اس نے آسمان کی طرف ڈرتے ہوئے دیکھا' چھما چھم بارش شروع ہو گئی۔ عدیل کپڑے اٹھا کرنیچے آ گیا۔ برآمدے میں کپڑے رکھ کر وہ وہیں صحن میں آ کھڑا ہوا۔ وہ بھی وہیں بیٹھ گئی۔
" کتنا ہی اچھا ہوتا نا کہ شادی کے بعد لڑکا اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر آ جایا کرتا۔" وہ بچوں کی سی معصومیت سے بولی۔
" کیوں؟" اس نے مڑ کر دیکھا ایک عجیب ساخوف اس کے چہرے پر دکھائی دیا۔
" لڑکے بہادر ہوتے ہیں ناں ' مضبوط اور بلند حوصلے والے' انہیں کم از کم بادلوں کے گرجنے اور چمکنے پر امی تو یاد نہیں آتیں ناں۔" اور اس کی اس بات پر عدیل کی ہنسی چھوٹ گئی۔
" بیوقوف لڑکی' شادی کے بعد یہ جو شوہر نام کا انسان ہوتا ہےناں' وہ سب سے قریب اور سب سے اپنا ہوتا ہے' اس کے قریب ہوتے ہوئے ایسی باتوں پرامی یاد نہیں آتیں۔" اور اپنی بات مکمل کر کے وہ خود ہنستا چلا گیا۔
" اور اگر شادی والے دن ہی ایسی ہولناک بارش ہوجاۓ تو اس بے چارے کو کیا پتہ کے میر دلہن کو بالوں کی گرج سے ڈر لگتا ہے۔" وہ نیا نکتہ اٹھا لائی تھی۔ عدیل نے مشکوک نظروں اسے دیکھا مبادا اس کی ذہنی حالت پر شاکی ہو۔