" تو پھر کسی ایسے سے شادی کرلو جو پہلے سے جانتا ہو کہ اس کی دلہن کو بادلوں سے ڈر لگتا ہے۔ جو پہلے سے اپنا ہو' جسے ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بتانے کی ضرورت نہ پڑے۔"
وہ اپنی ہی رو میں بول گیا' وہ سامنے آ کھڑی ہوئی۔
" ایسا کون ہے؟" اس لمحے عدیل کو اپنے سامنے کھڑی وہ چھوٹی سی لڑکی بہت پیاری اور بہت اپنی لگی جسے اپنوں سے دور جانے کا ڈر اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ وہ نظریں جھکا گیا۔ بارش اور زور سے گرج چمک کے ساتھ ہونے لگی۔ وہ اس کا ہاتھ گھسیٹ کر برآمدے میں لے آیا۔
" پکوڑے تلوں ۔۔۔۔۔ جی چاہ رہا ہے ناں ؟" اس نے عدیل کی خاموشی دیکھ کر موضوع بدلا اور اپنا ہاتھ چھڑایا۔
" ہوں۔۔۔۔۔ ہاں بہت۔۔۔۔ تمہیں کیسے پتا چلا؟" اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوۓ وہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
" اپنوں کے بارے میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں پتہ ہوتی ہیں۔" وہ باورچی خانے کی طرف بھاگ گئی' بارش ایک تواتر سے برسنے لگی. تائی نے صحن کا بلب جلایا اور وہیں برآمدے میں آ بیٹھیں۔
" شفق پکوڑے تل رہی ہے اوپر؟" انہوں نے اوپر کی طرف دیکھتے ہوۓ عدیل سے پوچھا۔
" ہوں۔۔۔۔ اوپر نہیں نیچے۔۔۔۔۔ اوپر تو کوئی نہیں ہے چاچی صبح سے اس کے رشتے کے سلسلے میں کہیں گئی ہوئی ہیں۔ " اس کے لہجے کی اداسی کو وہ محسوس نہ کر سکیں۔ مغرب سے کچھ دیر بعد چاچی کی واپسی ہوئی۔۔۔۔۔وہ وہیں نیچے بیٹھ گئیں۔
" بھابی یہ تصویر لائی ہوں' فیملی تو بہت اچھی تھی مگر لڑکا دیکھنے میں ہی غصے کا تیز لگ رہا تھا۔ میری شفق کا دل تو چڑیا جتنا ہے۔۔۔۔۔" بات کرتے ہوۓ ان کی آنکھیں بھرا گئیں۔ عدیل نے تصویر اچک لی۔ سخت سے چہرے والا وہ لڑکا واقعی شفق کے لیے اسے مناسب نہیں لگا تھا۔
" اس کی والدہ تو بڑے فخر سے بتا رہی تھیں کہ اس کے غصے سب ڈرتے ہیں۔"
" ہوں۔" تائی بھی جیسے سوچ میں پڑ گئیں۔
دو دن سے امی کو بخار تھا' عدیل ان کے کہنے پر ہی ماموں کی بیٹی اور صباحت کی ہونے والی نند یعنی اپنی کزن ارم کو لے آیا۔
" یوں تو میں شفق کو ایک آواز دیتی تو وہ دوڑی آتی مگر بیٹا اب تمہیں ہی اس گھر کے طور طریقوں کو سیکھنا' سمجھنا ہے' میں نے کل فون پر تمہاری ماں سے بات کی تھی' میں نکاح والے دن ہی تم دونوں کا رشتہ بھی طے کرنا چاہتی ہوں' فی الحال اس نے کوئی جواب تو نہیں دیامگر مجھے یقین ہے وہ انکار بھی نہیں کرے گی' آخر بیٹی کا معاملہ ہے اور ہر ماں یہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی اپنوں میں ہی جاۓ۔" ان کی بات پر عدیل کے ساتھ ساتھ ارم نے بھی چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ دونوں ان دنوں ممانی کے ہاں ٹھہرے ہوۓ تھےجن کی رہائش اسی شہر میں تھی اور ممانی نے واپس آ کر جواب دینے کو کہا تھا۔
" مگر پھپھو مجھے تو کچن کا خاص کام نہیں آتا۔۔۔۔۔۔
صباحت کی طرح میں بھی بس کالج میں ہی بزی رہی۔۔۔۔۔۔ اب تھوڑا تھوڑا سیکھنا شروع کیا ہے۔" وہ صاف گوئی سے بولی۔ اس لمحے وہ بے دلی سے مسکرا کر رہ گئیں۔ عدیل شفق کو بلا لایا وہ آتے ہی شروع ہو گئی۔