SIZE
4 / 8

" جی اچھا۔ بھیگی بلی کی طرح ہلکی سی آواز نکال کے وہ بری طرح ہما کو

کو سنے میں مصروف تھی۔ اس وقت اسے اپنی اماں ہٹلر سے کم نہ لگ رہی تھیں۔

اس روز ہما کو لڑ کے والے دیکھنے آئے تھے سو فریدہ نے کام کاج میں مدد کے لیے پریزے کوصبح ہی بلا لیا تھا۔ پریزے اور ہما نے اپنی موج مستیوں سے سارا گھر سر پراٹھا رکھا تھا۔

" توبہ ہے تم لڑکیوں سے' بھئی کام کاج کے لیے بلایا ہے نہ پریزے بیٹا تمہیں بھی' شام میں جلدی ہی آ جائیں گے مہمان اورتم لوگوں کی مستیاں ہی ختم نہیں ہورہیں۔ ہما تم جلدی صفائی وغیرہ کرو پھر میرے ساتھ کچن میں آ کے زرا کباب بناؤ بھئی لڑکے والوں کو کم از کم اتنا اندازہ تو ہونا چاہیے نہ کہ لڑکی کو زیادہ نہیں تو کم از کم تھوڑا بہت تو کام کاج آتا ہے۔ دونوں نے فورا اپنی ہنسی کو بریک لگاۓاور کام میں جت گئی۔

ایک گھنٹے کے اندر انہوں نے سارا گھرچمکا ڈالا تھا۔

"میری بنو کی آۓ گی بارات میں ڈھول بجاؤں گی۔" وہ ترنگ میں گاتی مسلسل ہما کو چھیٹر رہی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں زرا سی دیر سستانے کی غرض سے کمرے میں آئی تھیں۔

"تمہارا بھی وقت آئے گا میری جان ! پھر دیکھنا میں بھی یہی کروں گی۔ "ہما نے اسے بڑی ہی زور سے چٹکی کاٹی اور وہ تلملا کر رہ گئی۔

"ہاہاہا........... دیکھ لیں گے ابھی تو گانے دو۔ میری بنو کی آ ئے گی بارات میں ڈھول بجاؤں گی۔" وہ ایک بار پھر گانے لگی۔

" بنو کی سہیلی ریشم کی ڈوری' چھپ چھپ کے شرمائے دیکھے چوری چوری ۔" زایان نے اچانک انٹری دی۔

"آہم آہم۔۔۔۔۔ ‘‘ ہما نے مصنوئی کھانس کراسے چھیڑا۔

"آج آفس والوں نے بھگادیا کیا؟ " پریزے نے اپنی دھڑکتی دھڑکنوں کو قابو میں کرتے ہوئے کہا۔

"تمہاری طرح نہیں کہ جہاں جاتی ہو لوگ بھگا دیتے ہیں۔ امی کا آرڈرتھا سو آنا پڑا۔ ویسے تم دونوں کی آج کی کارکردگی دیکھتے ہوئے ہماری پڑوس والی راشده خالہ تمہیں اپنے گھر میں ماسی کی نوکری ضرور دے دیں گی۔“ زایان نے چمکتے دھلے دھلائے گھر کو دیکھتے ہوئے دونوں کو چھیڑا۔

"زایان تم۔۔۔۔۔۔" پریزے نے کھینچ کے کشن مارا' وہ شروع سے ہی اسے بھائی نہیں کہتی تھی۔ اس نے ایک بار اماں ابا کی بات سنی تھی کہ ان کا رادہ اسے خالہ کے گھر بیاہنے کا ہے سو وہ جب سے ہی اپنی حسین آنکھوں میں زایان کا خواب سجائے بیٹھی تھی بنا جانے کے زایان کیا سوچتا ہے۔ دونوں کی ہمہ وقت ہوتی نوک جھونک سے اب تو ہما بھی بھائی کو چھیڑنے لگی تھی۔

" بھائی لگی تو نہیں۔" ہما کو فورا تھکے ہارے گھر لوٹے بھائی کی فکر لاحق ہوئی ۔ اس کے منہ سے نکلتی مصنوعی آہ کراہ دیکھ کر کوئی بھی دیکھتا تو یقین کرتا کے بیچارے کے بڑی زور سے لگی ہے۔

" آپ بیٹھیں میں کھانا لگاتی ہوں ۔ ہما زایان کو کھیچتی ہوئی باہر لے گئی-پریزے مسکراتی ہوئی لیٹ گئی 'کافی تھک گئی اور اب اسے نیند آنے لگی تھی۔ وہ وہیں بیڈ سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے سو گئی تھی۔

شام میں اس کی آنکھ تقریبا چار بجے کھلی ' وہ سو کے اٹھی تو ہما کمرے میں موجود نہیں تھی' اس نے لائٹ آن کی اور اپنے بال صحیح کرتے ہوۓ دوپٹہ سنبھالتی وہ باہر نکل آئی۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی توہما اسے کہیں نظر نہ آئی تھی۔

" ہوسکتا ہے کہ خالہ کے کمرے میں ہو۔" وہ خود ہی سے سوال و جواب کرتی خالہ کے کمرے کی جانب چلی آئی' اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتی اندر سے آتی آواز پر اپنا نام سن کے وہ ٹھٹک گئی تھی۔