"زایان تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے پہلے کی بات اور تھی مگر اب میں تمہارے چچا وغیرہ کو کیا جواب دوں گی۔ پریزے سے اب تمہارا جوڑ نہیں بنتا ' کہاں تم دبلے پتلے اور کہاں وہ بھاری جسامت کی حامل۔" خالہ زایان کونجانے کیا کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں' پریزے کو پوری بات سمجھ میں آئی تو مارے شرمندگی سے اس سے اپنا آپ سنبھالا نہ جارہا تھا۔ آگے خالہ اور زایان نے کیا بات کی وہ سن نہ پائی تھی' اسے تو اپنے بارے میں خالہ کی یہ رائے جان کے ہی اتنی تکلیف ہوئی تھی کہ اس سے مزید وہاں کھڑا نہ رہا گیا اس نے فورا با کو کال کر کے بلایا اور بہانہ کر کے چلی گئی۔
اگلے دن سے اس پر ڈائٹنگ کا بھوت سوار تھا' یہ تھی اصل کہانی جو نہ زایان کو پتہ تھی نہ ہما کو۔ کافی دن لگے تھے اسے خود کو نارمل کرنے میں وہ اچھی صحت مند تھی' موٹی بالکل نہیں تھی اب زایان اتنا دبلا پتلا تھا تو اس میں اس کے دل کا کیا قصور جس میں بچپن سے ہی زایان کی محبت پہرا دیے بیٹھی تھی ۔ اس دن کے بعد وہ خالہ کے گھر نہیں گئی تھی۔ خالہ کو بھی لڑکے والے پسند نہ آ ئے تھے۔ اس دن کے بعد جب بھی خالہ ان کے ہاں اتیں تو وہ صرف ہما اور زایان سے بات کرتی اور خالہ کو وہ یکسر نظر انداز کر دیتی تھی اس کی یہ تبدیلی کسی نے نوٹ کی ہو کہ نہ کی ہو زایان نے بڑی شدت سے نوٹ کی۔
دن یونہی روکھے پھیکے سے گزر رہے تھے۔ مارننگ شوز کی کرامات تھیں یا یہ اس کی سچی لگن کہ اب وہ کافی کمزور ہو چکی تھی۔ ابا تو بے چارے جب اسے دیکھتے یہی کہتے۔
" ہاے میری بچی اتنی کمزور ہوگئی ۔‘‘ جبکہ اماں نہال ہوتیں۔
"پریزے چل شکر ہے تو نے کچھ کیا نہ کیا مگر یہ کام صحیح کیا' اب لگ رہی ہے نہ بالکل ہیروئن ثنا کی طرح۔“ اماں اسے فلم اسٹار ثنا سے ملاتیں تو وہ ہنس پڑتی ۔ دھیمی سی پھیکی سی ہنسی ۔ نگاہ ہر وقت دروازے پراٹکی رہتی۔
ایک ہفتہ ہو چلا تھا زایان نے آ کے جھانکا تک نہ تھا آتا تودیکھتا کے وہ کتنا بدل گئی تھی اس کی خاطر۔
" پیاروہ تو نہیں کہ انسان خود کو ہی تبدیل کرے بلکہ پیار تو وہ ہے جو جیسا ہے کی بنیاد پر قبول کیا جائے۔ " اس کا دل الگ دہائی دیتا مگر وہ اسے تھپکی دے کے سلا دیتی۔
کہاں وہ ہر وقت شرارتیں کرنے والی اور کہاں اب ایک دم چپ چاپ اب تو وہ اماں سے بھی بحث نہ کرتی۔ وہ جو کام کہتیں چپ چاپ کردیتی ۔ اماں الگ حیران تھیں اس کایا پلٹ پر۔
"بات سنیں آ پا نے تو اب تک پریزے کے رشتے کی بات ہی نہیں کی جبکہ وہ خود تو ہما کے لیے خوب رشتے ڈھونڈتی پھر رہی ہیں۔ خیر سے میری بچی بھی جوان ہورہی ہے ' ماشاءاللہ خوبصورت ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟" وہ ٹی وی لاونج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اماں کی اندر سے آتی آواز پر اس نے ٹی وی کی آواز دھیمی کردی تھی۔ اس کے کان اماں ابا کی آواز کی جانب ہی لگے تھے۔
" ابھی کچھ دن دیکھتے ہیں اگر انہوں نے بات نہیں کی تو ہم پریزے کے لیے رشتے دیکھنا شروع کردیں گے بھلے وہ آپ کی بہن ہوں مگرہم اپنی بیٹی کے متعلق خود سے تو بات نہیں کر سکتے ناں۔" وحید صاحب نے اماں کو سمجھایا۔
"جیسے آپ کی مرضی۔‘‘آمنہ وحید ان کی رضا میں خوش تھیں ۔
" تو کیا اماں ابا میری شادی کہیں اور کردیں گے۔" پریزےکا دل ڈوب کے ابھرا تھا یکا یک اس کا دل ہر چیز سے بے زار ہوگیا تھا۔ اس نے شدت سے زایان کے وصل کی دعا مانگی تھی۔
فضا میں کافی خنکی در آئی تھی۔ موسم ہلکا سا سرد ہو چلا تھا ۔ میٹھی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا ایک