سکون میں آ گئے ورنہ دونوں بھائیوں نے ابا کے مرتے ہی فساد برپا کیا ہوا تھا جبکہ آمنه کی ایک ہی بہن تھی' فریده جن کے دو بچے تھے زایان اور ہما۔ دونوں بہنیں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ ملنا جلنا بھی کافی تھا یوں پریزے ہما اور زایان تینوں کا بچپن ساتھ ہی گزرا تھا۔ پریزے اور ہما ہم عمر تھیں جبکہ زایان ان دونوں سے دو سال بڑا تھا۔ ہما اور پریزے کو پڑھائی سے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی سو کامرس سے گریجویشن کر کے فارغ تھیں۔ ہما گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تو پریزے پر آج کل ڈائٹنگ کا بھوت سوار تھا۔ نجانے کیوں آج کل اسے خبط لاحق ہوگیا تھا کہ وہ بہت موٹی ہے جبکہ نہ تو وہ زیادہ موٹی تھی نہ زیادہ دبلی تھی ہلکی سی بھاری جسامت اور گندمی رنگت ' تیکھے نقوش کی حامل پریزے کسی کی بھی پسند ہوسکتی تھی۔
زایان ایم بی اے ایوننگ کے ساتھ ساتھ ایک پرائیوٹ فرم میں بھی جاب کررہا تھا۔ فریده پرآج کل زایان اور ہما کی شادی کا بھوت سوار تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی اب آمنه کو بھی پریزے کی فکر لاحق ہونے لگی تھی۔
وہ آٹا گوندھ کے کام سے اپنی جان چھڑا کے بڑے ہی مزے سے ڈائجسٹ لے کے بیٹھ گئی تھی ' اب اماں کی باری روٹی پکانے کی تھی۔ فی الحال اس کے ناتواں کندھوں پر صفائی ستھرائی ' آٹا گوندھنے اور چائے وغیرہ بنانے کی ذمہ داری عائد تھی اور اسے یہ بھی بھاری لگتا تھا۔ ۔
"پریزے ادھر آو۔" ماں کی پاٹ دار آواز نے سمیرا شریف طور کے ناول ”ٹوٹا ہوا تارا" کا سارا مزا کرکرا کر ڈالا تھا۔
"آتی ہوں۔" اس نے بڑی ہی بے دلی سے ڈائجسٹ رکھا اور کچن کی راہ لی۔
" جی اماں ۔ اس نے مہذب و تابعدار بننے کی بڑی ہی ناکام کوشش کی تھی۔
" یہ آ ٹا گوندھا ہے تم نے لئی بنائی ہے اب اس سے روٹیاں پکاؤں یا چودہ اگست کی جھنڈیاں چپکاؤں۔ دھیان لگتا کہاں ہے تمہارا کام میں۔" چشمے کے پیچھے سے اماں نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں غصے سے گھمائیں۔ آج کل اماں کوئی اس کی شادی کی فکر لاحق ہو چلی تھی سوگھر داری سکھانا اور اسے سدھارنا ان کا مشن تھا ورنہ اس کی پیاری اماں آتی ہٹلر کبھی نہ تھیں۔
"اللہ پوچھے گا تجھے ہما ! تیری وجہ سے پڑھائی چھوڑ دی' اچھا ہوتا جو آگے پڑھ لیتی اس کام سے تو جان چھوٹتی۔ من ہی من میں اس نے ہما کو کوسا اگر وہ اس کے سامنے آجاتی تو وہ اس کے بال ہی نوچ لیتی۔
" اب منہ سے کچھ بولوگی بھی یا یونہی ٹکر ٹکردیکھتی من ہی من میں بڑبڑتی رہوگی۔ اماں نے پھر گھورا۔
"سوری نہ پیاری اماں ۔ اس نے اماں کو مکھن لگانے کی مصنوئی کوشش کی۔
"سوری وغیرہ مجھے نہیں پا پتہ ڈرم سے آٹا نکالو اور اس میں اور آٹا ملا کے میرسامنے صحیح کرو۔ اماں کہاں اس کے جال میں پھنسنے والی تھیں۔
" جی امی۔ وہ روتی صورت بنا کے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق آٹا نکالنے لگی تھی۔
" اور سنو! اج میرے سامنے روٹی بھی تم ہی بناو گی۔ آبا آنے والے ہیں تمہارے 'جلدی کرو۔" اماں نے ایک اور ظلم اس پر کیا۔
" مگراماں روٹی تو آپ۔۔۔۔۔۔"
" کہا نا اگر مگر ںہیں جوکہا ہے وہ کرو' کل کو دوسرے گھر بھی جانا ہے میری ناک نہ کٹوا دینا۔" اب کے اماں اس کی بات کاٹ کے بڑے ہی سخت لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔