SIZE
2 / 8

"پریزے یارتم تو دو دن میں اتنی دبلی پتلی لگنے لگی ہو کیا کررہی ہوآج کل؟" اس کی خالہ زاد بہن ہما نے آتے ہی اس کی کمر پر ایک مکا رسید کیا۔

"ہائے مار ہی ڈالا ظالما اور کیا کہا تم نے دبلی لگنے لگی ہوں تو کیا پہلے موٹی تھی؟ وہ نہایت انہماک سے اپنا من پسند ناول "شہر چارہ گراں" کوئی دسویں بار پڑھ رہی تھی۔ اس اچانک افتاد پر اپنی کمر پکڑ کے ہما کے پیچھے پیچھے بھاگی' اسے تو ابھی تک یہی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی ڈائٹنگ والی بات خالہ کے گھر تک کیسے پہنچی۔

"ہمت ہے تو پکڑ کے دکھاؤ۔" ہما اسے چیلنج کرتی ہوئی اس کی اماں کے کمرے میں گھس گئی اور وہ بے چاری اندھا دھند بھاگتی ہوئی ایک بھاری بھرکم وجود سے بری طرح ٹکرائی تھی۔

" آؤچ۔۔۔۔۔۔ میرا سر پھاڑ دیا دیکھ کے نہیں چل سکتے تم کیا بہت شوق سے راہ چلتی لڑکیوں سے ٹکرانے کا۔" ابھی اس کی کمر نہ سنبھلی تھی کہ وہ بے چاری اپنا سر ایک ہاتھ سے پکڑے اپنی اکلوتی خالہ کی اکلوتی اولاد نرینه زایان آفتاب کے اوپر بری طرح گرجی تھی۔

"محترمہ پریزے صاحبہ! آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھاگ آپ رہی تھیں میں نہیں اور دوسری بات آپ کوئی راہ چلتی لڑکی نہیں میری اکلوتی خالہ کی اکلوتی لڑکی ہیں۔ وہ اپنے نام کا ایک تھا مجال ہے جو اپنی غلطی مان لے۔ ' '

"ہونہہ۔۔۔۔ تم سے تو بات ہی کرنا فضول ہے۔" پریزے پیر پٹختی ہوئی اماں کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ مجھے بھی تم سے بات کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے پریزے عرف موٹی ۔ " اس نے لفظ موٹی با قاعده اونچی آواز میں اسے سنانے کے لیے کہا۔

"کیا کہا تم نے اپنی آنکھیں چیک کرا لو یا پھر جا کے اپنا علاج کراو آئی سمجھ۔۔ ہر کوئی تمہاری طرح ماچس کی تیلی کی طرح نہیں ہوتا۔ " وہ واپس پلٹی اور اس نے بھی تیر ٹھیک نشانے پر پھینکا۔

"تمہاری تو۔۔۔۔۔ زیان نے اسے گھورا۔

"بس بس................ یہاں کشتی مت شروع کردینا آپ لوگ۔ آمی بلارہی ہیں تمہیں پریزے جلدی چلو۔ اس سے پہلے کے پریزے کوئی اور وار کرتی ہما اسے کھینچ کر اندر لے گئی۔

" آئی بڑی بھائی کی چمچی۔" پریزے نے ہما کے ہاتھ پر بڑی ہی زور سے چٹکی کاٹی' اپنی دانست میں اس نے اپنا بدلہ لے لیا تھا ہما تلملا کے رہ گئی۔ پریزے کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ صحن میں کھڑے زایان نے بڑی ہی دلچسپی

سے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک سی اتر آئی تھی یوں کہ جیسے آنے کا مقصد پورا ہوگیا ہو۔

ڈبل اسٹوری پر مشتمل چار کمروں کے اس چھوٹے سے گھر میں آمنہ وحید' وحید صدیقی اور ان کی اکلوتی بیٹی پریزے وحید بڑے ہی پیار سے رہتے تھے یوں بھی ابا کی مین روڈ پر کپڑوں کی چلتی ہوئی دکان تھی۔ اولاد بھی ایک ہی تھی سو گھر کا خرچ بڑی ہی آسانی سے چلتا تھا بہت امیر نہ سہی لیکن ان کا تعلق اچھے خاصے خوش حال گھرانے سے تھا۔ وحید صدیقی کے دو ہی بھائی تھے جو ان سے چھوٹے تھے۔

اماں ابا کے انتقال کے بعد تینوں بھائی الگ الگ گھر کے مکین ہو کے رہ گئے تھے۔ ملنا جلنا بھی بس تہوار کے تہوارہی تھا۔ وحید زرا ساده سی طبیعت کے مالک تھے سوابا کی ساری جائیداد دونوں بھائیوں کے حوالے کر کے