شاہ بخت کا پہلا ٹکراؤ نورالعین سے کینٹین میں ہوا، پروفیسر جمشید کی کلاس کے بعد تمام اسٹوڈنٹس نے کمیٹین کا رخ کیا جس میں نور العین بھی شامل تھی جو اپنی یونیورسٹی فرینڈ رمشا کے ساتھ سموسے اور چائے سے لطف اندوز ہونے آئی تھی رش کی وجہ سے انہیں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا تھا کہ اتنے میں ایم بی اے کا مشہور لیڈر شاہ بخت اپنے دوستوں کے ساتھ اندر داخل ہوا اور باقی لوگوں سے پہلے ان کا مطلو بہ آرڈران تک پہنچا دیا گیا، یہ منظر دیکھ کر نور العین کا چہره غصے سے تپنے لگا وہ تن فن کرتی کینٹین بواۓ کی طرف بڑھی۔
"نور! رک جاؤ یار، میں کہتی ہوں شاہ بخت کے گروپ سے الجھنا فضول ہے وہ بہت بڑے وڈیرے
کا بیٹا ہے، یہ پوری کینٹین سیکنڈوں میں خرید سکتا ہے اور ہمیں معلوم ہے یونیورسٹی کے سالانہ فنڈز میں بھی اس کے باپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔‘‘ رمشا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"تو اس کا کیا مطلب ہے کہ یہاں باقی اسٹوڈنٹ حقیر اور کیڑے مکوڑے ہیں، تم نے آنا ہے تو آو ورنہ اس نواب سے ڈرتے رہو، میں یہ نا انصافی نہیں دیکھ سکتی، واہ بھئی، ہم کب سے بھوکے پیاسے صبر سے انتظار کر رہے ہیں اور وہ موصوف وہاں بیٹھے مزے اڑا رہے ہیں۔ یہ کہہ کر نورا لعین شاه بخت کے عین سامنے جو کھڑی ہوئی، شاہ بخت نے چونک کر اس کامنی سی لڑکی کو دیکھا جس کے ماتھے پر شکن اور غصے سے سرخ چہرہ اسے حسین تر بنا رہا تھا۔
"اے مسٹر! یہ کہاں کا انصاف ہے پہلے ہماری باری تھی اور تم ہم سے پہلے اپنا آرڈر لے کر
یہاں آرام سے بیٹھے ہو یہاں موجود باقی مخلوق کیا تمہیں احمق نظر آ رہی ہے، امیر ہو گے اپنے گھر کے، اپنے باپ کی دولت کا زعم کسی اور کو دکھانا ، یہ یونیورسٹی ہے یہاں کے اصول و قوانین سب کے لئے مساوی ہیں اوکے، آئندہ مینرز اور ڈسپلن کا خیال رکھنا ۔" نور العین نے شہادت کی انگلی تنبیہ کے انداز میں اٹھائے ہوئے کہا اور پھر ٹیبل پر سموسے سے بھری اور چھولے چاٹ کی پلیٹ اٹھائی اور یہ جا وہ جا۔
"ارے مس بات تو سنیں اس کی پے منٹ ہم نے کی ہے، آپ ایسے کس طرح یہ لے کرجا سکتی ہیں۔“ شاه بخت کے دوست ندیم نے احتجاج کیا جسے شاه بخت نے ہاتھ دبا کر روک دیا۔
بخت جو کہ پہلے اس سچوئیشن سے خورحیران تھا مگر اب نورالعین کی خوداعتمادی اور جرات مندی کو انجوائے کر رہا تھا۔ آج تک اس نے صنف نازک کو بہانے بہانے سے اپنے گرد منڈلاتے دیکھا تھا مگریہ لڑکی شاہ بخت کو ان چنرلمحوں کے فسوں میں اسیر کرگئی تھی، شاہ خاور کا دل اب اس کا نہیں رہا تھا۔
"یہ لو میری بزدل دوست ' انجوائے کرو سموسے اور چاٹ وہ بھی اس اکڑو شاہ بخت کے پسیوں سے، ہونہہ تم بلاوجہ ڈر رہی تھی، کیا کرلیا اس نے یا اس کے چمچوں نے؟ بلکہ آئندہ کے لیے توبہ کر لے گا۔‘‘ نور العین نے مزے سے سموسے پر کیچپ ڈالتے ہوئے کہا جس کا ساتھ اب رمشا بھی دے رہی تھی، اس بات سے بے خبر کہ وہ دو بلوریں آنکھوں کے مسلسل حصار میں ہے جس کے لبوں کی جامد خاموشی اور گہری آنکھیں کسی اور ہی فسوں کی کہانی سنا رہی تھیں۔
"بخت یار ! یہ تجھے کیا ہو گیا؟ وہ لڑکی اتنے آرام سے نا صرف ہمارا لنچ ا اٹھا کر لے گئی بلکہ بل بھی ہمیں ادا کرنا پڑا اور تو خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہا، حیرت ہے ، تجھ جیسا اصول کا پکا اور نڈر شخص بھی ایک معمولی لڑکی سے شکست کھا سکتا ہے۔‘‘ بخت اپنے دوست دانیال کی بات سن کر ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا مگر ابھی تک اسے کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ تھی۔