"او کم آن یار! اس لڑکی نے ایسا کچھ غلط بھی نہیں کیا ' غلطی ہماری ہی تھی، ہم بعد میں آۓ تو ہمیں اپنے آرڈر کا دوسرے اسٹوڈنٹس کی طرح انتظار کرنا چاہیے تھا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی کلائی
میں بندھی ریڈیم ڈائل کی چمکتی گھڑی پر نظر ڈالی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا جاتے جاتے وہ نورالعین پرایک سرسری مگر بھرپور نظر ڈالنا نہیں بھولا تھا جو بے نیازی سے سموسے کے ساتھ انصاف کرنے پر محو تھی جس کے دائیں گال پر پڑتے ڈمپل کے بھنور میں شاہ بخت کا دل اٹک گیا تھا۔
بی جان ( شاہ عالم کی زوجہ) کے حکم پر آج تمام ملازمائیں صبح سے ہی کچن میں مصروف تھیں کیونکہ آج ان کا لاڈلہ اور خوبرو سپوت شاہ بخت دو مہینے کے بعد گھر تشریف لا رہا تھا۔
جان نے اپنے دوپٹے سے ادیدہ پسینہ صاف مسکرا کر رہ گیا۔ کرتے ہوئے کہا تو شاه جت ان کی ساری
" اوه بالیو! ذرا تیزی سے ہاتھ چلاؤ، مرن جوگیو! ہاتھوں میں دم نہیں ہے کیا؟“ بی جان نے گھریلو ملازمہ کی بیٹی ماروی کو آواز د یتے ہوئے کہا، ماروی کم عمر گندمی رنگت کی پرکشش ملازمہ تھی جو سارے گھر میں پھرتی کی طرح کام کرتی نظر آتی ہی جان کے غصے سے ڈر کر اس نے لسی بلوتے برق رفتاری سے چلتے ہاتھوں کو مزید حرکت دی۔
"سلام بی جان !‘‘ شاہ بخت نے ہمیشہ کی طرح جھک کر ادب سے بی جان کو سلام کیا، بی جان اس کے انداز تکلم اور فرمانبرداری پر نہال ہو گئیں۔
" بسم اللہ' بسم اللہ میرا سوہنا پت گھر آیا ہے' گھر کی دیواروں تک تیرے آنے سے روشن ہو گئی ہیں ' سفر میں تو سب خیر رہی ناں' ماروی او ماروی اف ایک تو اس سستی کی ماری لڑکی سے میں بیزار ہوں ' ارے جلدی بخت پتر کے لیے لسی لے کر آ ' اتنی چلچلاتی دھوپ میں میرا بیٹا آیا ہے' دیکھ چہرا کیسا سرخ ہو رہا ہے۔" بی جان نے اپنے دوپٹے سے نادیدہ پسینہ صاف کرتے ہوۓ کہا تو شاہ بخت ان کی سادگی پر مسکرا کر رہ گیا۔
" ارے بی جان ! مجھے کوئی گرمی نہیں لگ رہی' میں کوئی پیدل چل کر تھوڑا ہی آیا ہوں۔"
اتنے میں ماروی لسی سے بھرا جگ لے کر آ گئی، بی جان نے بڑے پیار سے بخت کے نہ' نہ
کرنے کے باوجود لسی کے دو گلاس پلا دیے، ماروی جب تک وہیں ہاتھ باندھ کر کھڑی رہی بخت کی اس پر نظر پڑی۔“
" ارے ماروی تم کھڑی کیوں ہو، بیٹھ جاؤ ناں۔"
" ارے نہیں چھوٹے سائیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔“ ماروی نے تھوڑا جھجکتے ہوئے جواب دیا بی جان سے اسے بہت خوف آتا تھا۔
" ارے بخت پت یہ کمی کمین ہیں ان کی جگہ ہمارے برابر نہیں بلکہ ہمارے قدموں میں ہے ان کو اتنا سر چڑھانے کی ضرورت نہیں ۔" بی جان نے نخوت سے تحقیر آمیز انداز میں کہا جن کی بات پر نہ صرف ماروی کی شرمندگی کے مارے آنکھیں بھیگ گئیں بلکہ بخت کو بھی بی جان کا مغروران لہجہ اچھا نہیں لگا۔
"بی جان! مجھے کم از کم آپ سے یہ امید نہیں تھی بابا جان کی حاکمیت کا انداز آپ میں بھی رچ
بس گیا ہے، آپ بھی ان کی زبان بولنے لگیں ہیں ارے بی جان ہم سب نبی پاک ﷺ کے امتی ہیں اللہ نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے، تو ہم اور آپ اللہ کی کسی بھی مخلوق کو حقیر سمجھنے والے کون ہوتے ہیں جبکہ ہم خود اس کے ادنیٰ سے بندے اور محتاج ہیں وہ جب چاہے ہمارا مال و متاع، ہماری شان و شوکت ہم سے چھین کر فقیری میں لے آئے۔ یہ سب اس کا کرم ہے جس کے شکرانے کے طور پر ہمیں اپنے غریب ملازموں کا خیال رکھنا چاہیے۔" ماروی کی نظر میں بخت کا رتبہ مزید بلند ہو گیا اس نے تشکرآمیز نظر سے بخت کی طرف دیکھا۔
"اور ماروی یہ تمہاری کچھ کتابیں ہیں ان میں اہم جوابات کے نشان لگا دیئے ہیں پھر بھی
کوئی مسئلہ ہو تو مجھ سے پوچھ لینا میں بھی ایک ہفتے تک یہیں ہوں اگلے سال تم نے میٹرک کے بورڈ کے امتحان میں بیٹھنا ہے اور اچھے نمبروں سے پاس ہونا ہے۔"