سنسار، ونی اور کارو کاری جیسی رسومات ہمارے دیہی معاشرے میں عام ہے آج تک عورت کو صرف پاؤں کی جوتی کا درجہ دیا گیا ہے اور مرد کی خاطر چا ہے وہ باپ ہو، بھائی یا شوہر عورت ہی ہمیشہ قربانی دیتی آئی ہے مگر آج آپ کو ایسے قبائلی گھرانے کی کہانی سنائی جارہی ہے جہاں ایک عورت کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لئے مرد نے آواز اٹھائی اور ان فضول رسومات کے خاتمے کے لئے اہم کردار ادا کیا اور روایت پرست کی بجائے روایت شکن بننے میں فخر محسوس کیا، یہ اندرون سندھ کے وڈیرے شاہ عالم کی حویلی کا منظر ہے جو قدیم و جدید طرزی خوبصورت امتزاج لئے ہوئے ہیں ' اس حویلی کی دیواریں جتنی اونچی اور سنگلاخ ہیں اس میں بسنے والے مردوں کے دل اس سے بھی زیادہ آہنی اور جذبات سے عاری ہیں جو عورت کو صرف اپنا غلام سمجھتے ہیں۔
پھپھو بشیراں جو وڈیرے شاہ عالم کی بڑی بہن ہے خاندان میں کوئی جوڑ نہ ہونے کی وجہ سے اور جائیداد بچانے کے لئے انہیں قرآن سے
بخش دیا گیا، سفید لباس میں ملبوس وہ ایک چلتی پھرتی بدروح لگتی ہیں جن کا جسم تو سانس لیتا ہے مگر روح ہرطرح کے جذبات و احساسات سے خالی ہے، اس کے بعد یہ زرد ریشمی کپڑے میں اداسی کی تصویر بنی لڑکی شاہ عالم کے بڑے صاحبزادے شاہ خاور کی بیوی کم باندی زیادہ ہے کم عمری میں اس کے آنکھوں کے نوخیز خواب چھین کر اس سے دگنی عمر کے مرد کے پلے باندھ دیا گیا کہ اس کے بھائی نے شاہ عالم کے منجھلے' آوارہ صفت بیٹے کا اپنی کسی ذاتی دشمنی کی وجہ سے قتل کر دیا تھا جس کے خون بہا کے طور پر ایک بہن کو ہی قربانی دینی پڑی، سارا دن ملازموں کے ساتھ خود بھی گھن چکر بنی رہتی لیکن بدلے میں
اسے ساس اور سسر کے تحقیر بھرے جملے اور شوہر کی نفرت ملتی، شوہر فطرتا عياش تھا جسے باہر کی بازاری عورتوں سے تعلقات قائم کرنے میں فخر اور بیوی سے جائز تعلق رکھنے میں بھی شرمندگی محسوس ہوتی تھی اور یہ شاہ عالم کا سب سے چھوٹا بیٹا شاه بخت ہے 'چوڑے شانے ، مردانہ وجاہت کا عملی نمونہ ' کھڑی مغرور ناک، بلوری آنکھیں اور گھنی مونچھوں تلے عنابی ہونٹ، شان ہے نیازی کا یہ عالم کہ جہاں سے گزرتا لڑکیاں دل تھام کر رہ جاتیں، جس کی ایک نگاہ الفت کسی لڑکی کے لئے اعزاز سے کم نہ ہوتا، کراچی یونیورٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں ایم بی اے کے فائنل ائیر میں زیرتعلیم' تمام اساتذہ کا ہر دلعزیز ہونہار اسٹوڈنٹ اور اسٹوڈنٹ یونین کا بے خوف اور نڈر رہنماء۔ روسری طرف اکنامکس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والی نور العین ایک معمولی اسکول ماسٹر کی ذہین' اکلوتی نور نظر تھی۔ اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہر فرمائش پوری کرنا اس کے والدین کی اولین ترجیح تھی، مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود چال میں تمکنت اور چہرے میں مغرورانہ مسکراہٹ جو سامنے والے کو تسخیر کرنا جانتی ہے۔