میسج تھا یا بم پھینکا گیا تھا جو شانزے کے و جور کے ٹکرے ٹکرے کر گیا تھا وہ دن اور آج کا دن شانزے نے خود پر خول چڑھا لیا تھا ۔ پہلے پہل تو ہر طرف سے مایوس ہو کر وہ نیٹ پر لگ گئی فون پر رانگ نمبر سے دوستی' نیٹ پر فیک دوستی، مگر جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا دنیا بس کھیلتی ہے، دکھ میں زخم پر مرہم کوئی نہیں رکھتا، وہ دنیا کے سامنے ہنستی تھی مگر تنہا بیٹھ کر روتی تھی۔
کرار شاه آج بھی اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا تھا، اسے بھلانا آج بھی نا ممکن تھا، ان آٹھ سالوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب اس نے کرار شاه کومیسج نہ کیا ہو، اس کا نمبر ٹرائی نہ کیا ہومگر بے سود۔
وہ دنیا سے بیزار ہوگئی، زندگی سے تھک گئی تھی، دنیا بھول گئی تھی مگر گھر والوں نے آج بھی اسے کچھ نہیں بھولنے نہیں دیا تھا، آج بھی چھوٹی سی بات پہ ہنگامہ ہوا تھا اور بات شانزے تک آ گئی تھی، اس نے اپنی ماں کی طرفداری کی تھی اورملبہ شانزے پر گرا تھا، باپ جواونچی آواز میں بولتا نہ تھا اب ہر روز طعنے مارنے لگا تھا کہ تجھے کالج پڑھنے بھیجا تھا تو پڑھا نہیں اب کیا بتاتی اماں اور بہن بھائیوں نے کالج جانا چھڑوا دیا تھا ،بس گھرر کے قید خانے میں قید کر دیا تھا، نہ اسے معافی ملتی نہ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت' نہ اس کی شادی کرتے ، اس غصے میں دو تین دن ہوئے اس نے کھانا پینا چھوڑ رکھا تھا ' حرا منتیں کرکر تھک گئی مگر اس کے اندر کا دکھ تھا کہ کم نہیں ہو رہا تھا ، اپنے سگے ماں باپ نے طعنے مار مار کربے موت مار دیا تھا، وہ بہن بھائیوں کو خوش آزادی سے جیتے دیکھ دیکھ کر حسرتیں، خواہشیں اپنے اندر دفن کرتی جاتی مگر آج ضبط کا دامن چھوٹ گیا تھا۔ وہ آگاه تھی کہ خود کشی حرام ہے مگر ہار گئی تھي ۔ جب زندگی حرام ہو جائے تو موت حلال ہو جاتی ہے۔ دو تین دن کی بھوک پیاس سے سر چکرا چکرا جارہا تھا۔ سوچوں کا لاوا الگ دماغ کی نسیں کھول رہا تھا۔ ایسے میں اچانک چکر آیا اور وہ اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی، جب شام تک کمرے سے نہ نکلی تو اماں کمرے میں آئی تھی اور اسے بیڈ پر گرے دیکھ کر شروع ہوگئی تھیں۔
" یہ دیکھو نواب زادی صبح سے بستر توڑ رہی ہے' کام باپ کے نوکر آ کر کریں گے نا جانے اندر بیٹھ کر کن یاروں سے باتیں کرتی ہے کتنے فون رکھے ہیں، اٹھ ہڈ حرام ۔‘‘ اماں نے آگے بڑھ کر بالوں سے کھینچا تھا مگر کوئی اثر نہیں 'دو ہتھڑ اور جڑے تھے مگر ناکام ، آخر نجانے کس احساس کے تحت اماں نے آگے بڑھ کر اسے سیدھا کیا تھا، اس کی سانس چیک کی جو بند تھی ۔ زور زور سے گھر والوں کو آوازیں دی تھیں سب اکٹھے ہو گئے تھے ، شور سن کر ساتھ والے گھر سے حرا آگئی کیا، اس کی حالت دیکھ کرحرا نے بھائی کو آواز دی ،حرا کا بھائی بھی آ چکا تھا ' حرا ان سب پر قہربھری نظر ڈالتی بھائی کے ساتھ ہسپتال لے گئی تھی' گھر والے چکراۓ پھر رہے تھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کون سے ہسپتال گئے مگر ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی ایمبولینس ہارن بجاتی اور اپنے مخصوص سائرن میں دروازے پرتھی، بابا نے جیسے ہی دروازہ کھولا لڑکوں نے اسٹریچرنکالا تھا، سفید کپڑے سے ڈھانپا اس کا وجود بے جان ہو گیا تھا، بہن بھائی اماں بابا سب ساکت تھے' یہ کیا ہو گیا تھا، جو بھی تھا ان کی سگی اولاد تھی' بابا کو تو سب بچوں سے زیادہ لاڈلی تھی ' وہ خاموش تھی بول نہیں رہی تھی ، حرا چار پائی سے ٹکریں مار مار رو رہی تھی مگر وہ اٹھ نہیں رہی تھی، ڈاکٹر نے کہا تھا، بلڈ پریشر ہائی ہونے سے دماغ کی نس پھٹ چکی ہے اور بروقت ہسپتال نہ لانے کی وجہ سے ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے، ہر طرف شور تھا۔