وہ کمرے سے باہر نکلی تو باہر چاروں بہن بھائیوں کو ٹی وی کے سامنے بیٹھا پایا جو ٹی وی میں کم اور اپنے اپنے ٹچ موبائل میں زیادہ گم تھے، اماں پیچھے بیٹھیں سبزی بنانے میں مصروف تھیں اور بابا ٹی وی کی طرف متوجہ تھے، اس نے خاموشی سے آ کر اماں سے سبزی والی ٹوکری اٹھائی اور کچن میں چلی آئی تھی ، یہ اس کا معمول تھا، کھانا بنانا، ناشتہ بنانا' برتن کپڑے دھونا' گھر کی صفائی سب وہی کرتی تھی، ہاں کاموں کے وقت کوئی کچھ نہیں بولتا، کیونکہ اس وقت وہ مفت کی ملازمہ جو ہوتی تھی۔
آج سے کچھ سال پہلے جب اس نے میٹرک پاس کیا تھا اس نے کاج داخلہ لیا تھا ایف ایس سی میں اس کا خواب ڈاکٹر بننا تھا، وہ سب بہں بھائیوں میں زیادہ خوبصورت اور زیادہ لائق تھی ، مگر ہائے رے قسمت، نصیب ویسا خوبصورت نہ نکلا تھا، اس کی زندگی میں کرار شاہ آ گیا تھا۔
وہ اک بہت اچھا نیک اور سلجھا ہوا انسان تھا' وہ بھی شانزے سے بہت محبت کرتا' اس باتیں شانزے کے اندر خون بن کر دوڑتی تھیں، وہ اس کے عشق میں ایسی کھوئی کہ پھر سب بھول گیا ، خواب بھی،اس بات سے باخبر شانزے کی اک دوست تھی زری، وہ اکثر کرار سے باتیں کرتی تھی، اک دن اس نے فون کر کے کاج آنے کو کہا تھا، شانزے سے غلطی ہوئی کہ وہ بنا بتاۓ کالج چلی گئی مگر وہاں زری کہیں نہیں تھی، وہاں اسے کرار مل گیا، جو کچھ دن سے بیزار بیزار نظر آرہا تھا ، شانزے سے اس کے بن جینا مشکل ہو گیا تھا اس نے کرار سے بات کرنے کی ٹھان لی، جیسے ہی اس نے کرارکو آواز دی اور اسے سب بتایا تو پہلے تو وہ چونکا پھر نرمی سے اسے سمجھانے لگا تھا۔
" شانزے ابھی آپ فرسٹ ائیر میں ہو اور میں نے سکینڈ ائیر کے ایگزامز دیئے ہیں میں بہت آگے جانا چاہتا ہوں کچھ بننا چاہتا ہوں،ا بھی میں گھر والوں پرڈیپنڈینٹ ہوں اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتا آپ کو کیا دے پاؤں گا؟ آپ گھر جاو شاباش اور اپنی اسٹڈی پر توجہ دو، میں آپ کے ساتھ ہوں انشاء اللہ سب اچھا ہو گا، جاؤ شاباش “ اس نے شانزے کو سمجھانا چاہا تھا۔
واپسی پر شانزے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ، وہاں کوئی نہیں تھا جو اس کے گھر اطلاع کرتا سڑک اسے اٹھا کر لوگ اسے ہسپتال چھوڑ آئے تھے' رات بارہ بجے جب ہوش آئی تو اس نے گھر کا نمبر بتایا جس پر فون کر کے گھر والوں کومطلع کیا گیا تھا۔
وہ رات ہی گھر واپس پہنچ گئی تھی مگر اس کی زندگی کے سیاہ دن شروع ہو چکے تھے، دنیا کی طنزیہ مذاق اڑاتی کھال اتارتی نظریں، گھر والوں کے طغنے، شک اور اوپر سے کرار شاه سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہو گیا تھا، وہ کئی کئی میسج کرتی' فون کرتی وہ جواب ہی نہ دیتا، بھائی نے فون میں کرار کا نمبر دیکھا تو چھین لیا تھا، مگر شانزے ہی کیا جو کرار کے بغیر رہ سکے اس نے حرا سے فون لے کر پھر سے کرار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔
اک دن کرارشاہ کی طرف سے میسج موصول ہوا کہ تمہارے بھائی نے میری بہت انسلٹ کی
ہے اور تمہاری بہن نے مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ تمہاری زندگی سے چلا جاؤں، میں نے ان کے سامنے شرط رکھی ہے اگر شانزے کو گھر میں پہلے جیسا پیار' عزت دیں تو یوں سمجھیں کرار شاہ مر گیا ، شانزے میں نے وعدہ کرلیا ہے سدا خوش رہنا خدا حافظ۔