SIZE
4 / 9

وہ لڑکی جو لڑکے اور لڑکی کی دوستی کے سخت خلاف تھی میری دوست بن گئی ' میں اسے بیش قیمت تحائف دیتا ' وہ انہیں خوشی سے قبول کر لیتی' مجھے دیکھتی تو اس کی آنکھوں میں چمک آ جاتی اور میرے بلانے پر حیا کی لالی چھانے لگتی میں اس کی بلا وجہ تڑپانے کے لیے دو تین لگاتار چھٹیاں کرتا جب یونیورسٹی آتا تو اس کا مضطرب چہرہ دیکھ کر میرے تسخیر کرنے کے جذبے کو سکون ملتا' میں اسے مزید تڑپانے کے لیے دوسری لڑکیوں سے باتوں میں مصروف رہتا اس کا سلگتا گلاب سا چہرہ دیکھ کر مجھے قرار آ جاتا' اس کی جھیل سی آنکھیں میری محبت میں لبالب بھری رہتیں ' مگر سب سمجھتے بھی بے نیاز بنا رہتا' کیونکہ میرا مقصد تو پورا ہو گیا تھا اپنے فین کلب میں ایک اور ممبر کا اضافہ کر کے اب مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

یونیورسٹی کے دو سال مکمل ہو گئے' ہمیں جونئیرز کی طرف سے الوداعی پارٹی دی جا رہی تھی' عندلیب اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ جو دیکھتا اس کے حسن کے قصیدے پڑھ رہا تھا' مگر وہ جس کے منہ سے تعریف سننا چاہ رہی تھی وہ مٹی کا مادھو بنا ہوا تھا' میں جان بوجھ کر اسے اگنور کرتا جا رہا تھا' سوچی سمجھی اسکیم کے تحت سٹوڈنٹس کے ہجوم میں گم ہو جاتا وہ اپنی اسٹک پکڑے بمشکل مجھے ڈھوند ڈ ڈھونڈ کر تھک جاتی اور میں اس کی دیوانگی سے آج آخری دن بھی خوب انجواۓ کرنا چاہ رہا تھا۔

" حاشر! عندلیب عاصم آج تو غضب ڈھا رہی ہے۔" میرے کلاس فیلوز اس کی مدح سرائی میں بولے۔

" ہاں میں نے بھی دیکھا تھا اس ( لنگڑی حسینہ) کو لگ تو کافی کمال کی رہی تھی۔" میری بات پر قہقہے بلند ہوۓ اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر خوب انجواۓ کیا گیا۔

چند لمحوں بعد مجھے اپنے انتہائی قریب سے ٹک ٹک کی آواز سنائی دی' میں جو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اک دم رک گیا۔

عندلیب مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی اس کی سیاہ چمکدار آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے' کرب و دکھ اس کے چہرے پر عیاں تھا' شاید نہیں بلکہ یقینا اس نے ہماری باتیں سن لی تھیں۔

وہ جا چکی تھی مگر شرمندگی اور پچھتاوے کے عجیب سے احساس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا میں اسے ڈھونڈنے اور معافی مانگنے کے لیے پوری یونیورسٹی میں دیوانہ وار گھوم رہا تھا' مگر وہ تو ایسی گم ہوئی کہ مجھے نہ ملی۔

اس کی تلاش میں ہر آنے والا لمحہ تیزی سے گزرنے لگا اکثر لوگوں سے اس کا فون نمبر گھر کا پتہ پوچھتا اسی میں دو سال کا طویل عرصہ گزر گیا ' میں نے پاپا کا بزنس سنبھال لیا دن کی روشنی میں حاشر رحمٰن ملک کا نامور بزنس مین ہوتا اور رات ہوتے ہی ناکام و نا مراد عاشق کا روپ دھار لیتا' مجھے عندلیب سے سچ مچ محبت ہو گئی تھی' عندلیب عاصم نے مجھے یعنی حاشر رحمٰن کو اپنا اسیر کر لیا تھا۔

راتوں کو سجدوں میں رو رو کے خدا سے ایک دفعہ ملنے کے لیے دعائیں کرتا ' اس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو میرے دل کو بے چین رکھتے' ایک پل کے لیے قرار نہ تھا ' میرا دل افسوس اور پچھتاوے سے ماتم کرنے لگتا ' محبت دور کھڑی میرے تڑپنے کا تماشہ دیکھتی اور قہقہہ لگاتی۔

سنڈے کو میرا معمول تھا میں جاگنگ کے لیے پارک جاتا تھا' ' دھند کے بادل چھٹے تو سورج راجہ نے اپنا دیدار کروایا' لوگوں کی کثیر تعداد نے پارکوں کا رخ کیا' میں نے پورے پارک کا ایک چکر لگایا' پھر چند لمحوں کے لیے بیٹھتا اور پھر تازہ دم ہو کر دوسرا راؤنڈ لگاتا' میں تازہ دم ہونے کے لیے سنگی بینچ پر بیٹھ گیا اور آنکھیں موند لیں اپنی پانی کی بوتل پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ایک اسٹک میرے ہاتھ میں آ گئی' میں حیرت سے اسے دیکھے جا رہا تھا' وہ بلیک اسٹک اسے میں کیسے بھول سکتا تھا' بے اختیار میری نظر ساتھ بیٹھی لڑکی کے چہرے پر ٹھہر گئی' جتنی حیرت میری آنکھوں میں تھی وہ لڑکی بھی حیرت سے مجھے دیکھے جا رہی تھی ' کیونکہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں عندلیب عاصم تھی۔