SIZE
3 / 9

پیپرز سر پر تھے' عندلیب کتابی کیڑا بنی لائبریری میں زیادہ وقت گزارتی میری اس سے ملاقات براۓ نام ہی ہوتی یا اتنے مختصر وقت کے لیے ہوتی کہ اس میں مجھے اپنی " فنکاریاں" دکھانے کا موقع ٹھیک طرح سے نہ ملتا۔

پیپرز کے لیے چیک پوائنٹ نوٹس بورڈ پہ لگا دیا تھا' میری عندلیب پہ نظر پڑی کافی دنوں بعد وہ مجھے تنہا نظر آئی' میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیرتیز رفتاری سے بھاگ کر اس کے قریب یوں پہنچا جیسے تیز رفتار گاڑی بریک لگا کر روکی جاۓ تو شدید شور بلند ہوتا ہے ' اتنے شور شرابے پر اس نے انتہائی غصیلی نگاہ مجھ پر ڈالی اور کچھ فاصلے پر ہو کر کھڑی ہو گئی۔

" بیس تاریخ کو ہے اکنامکس کا پیپر۔" میں جان بوجھ کر اونچی آواز میں بول کے نوٹ بک میں لکھ رہا تھا۔

" پچس کو کونسا ہے؟" میں نے اس کی نوٹ بک پر پین رکھ کر دیکھنا شروع کر دیا۔

" میرے خیال میں نوٹس بورڈ پہ زیادہ وضاحت سے نظر آ رہا ہے۔" عندلیب چڑ کر بولی۔

" وہ اصل میں میری دور کی نظر کمزور ہے۔ میں نے انتہائی معصوم شکل بنا کر کہا۔

" اچھا جلدی نوٹ کریں۔" وہ قدرے کوفت بھرے انداز میں بولی۔

" ویسے بہت اچھی خوشبو آ رہی ہے' آپ نے کونسا پرفیوم لگایا ہوا ہے؟" میں فورا پٹڑی سے اترنے لگا۔

" آپ کے کسی کام کا نہیں ہےکیونکہ یہ لیڈیز ہے' فضول باتیں بند کریں اور جلدی چیک پوائنٹ نوٹ کریں۔" اس کے حسین چہرے پر شدید نا گواری پھیلنے لگی۔

" اگر پرفیوم کا نام بتا دیتی تو اچھا ہوتا کبھی کبھار کسی فی میل فرینڈ کو گفٹ دینا پڑ جاتا ہے۔" میں شوخی سے بولا۔

" حاشر کتنی دفعہ چیک پوائنٹ نوٹ کرو گے ابھی دو دفعہ تو ہمارے ساتھ نوٹ کر کے گئے ہو۔" عثمان اور علی کی آواز عقب سے آئی تو میں نے منہ پر انگلی رکھ کر انہیں خاموش ہونے کا اشارہ کیا' عندلیب شاید یہ سب ڈرامہ سمجھ چکی تھی' اس نے نوٹ بک غصے سے کھینچی اور گھورتے ہوۓ چلی گئی۔

" اوۓ تم لوگوں کو اس کے سامنے بکواس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟" میں ان دونوں پر برس پڑا۔

" حاشر یہ تیرے قابو آنے والی نہیں ہے۔" ان دونوں نے اچھا خاصا میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔

" تم دیکھتے تو جاؤ اپنے بھائی کو' ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔" میں نے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ ہار نہ ماننے والے انداز میں کہا۔

اگلے دن جو واقعہ ہوا اس کی وجہ سے عندلیب عاصم کسی پکے ہوۓ پھل کی مانند خود ہی میری گود میں آ گری۔

آسمان کو صبح سے ہی گہرے سیاہ بادلوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا' ابر رحمت برسنے کا واضح اشارہ مل رہا تھا' چند ہی لمحوں بعد ننھے ننھے قطرے اٹھکیلیاں کرتے ہوۓ آسمان سے اترے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف جل تھل ہو گئی' بارش سے بچنے کے لیے سٹوڈنٹس کی کثیر تعداد کوریڈور اور سیڑھیوں میں پناہ لیے ہوۓ تھی' سیڑھیوں میں بے پناہ رش تھا' عندلیب لائبریری سے نکل کر سیڑھیاں اترنے لگی' اپنی معزوری کی وجہ سے وہ انتہائی مشکل سے سنبھل سنبھل کر اتر رہی تھی ' رش ہونے کے باعث اس کا پاؤں سلپ ہوا' توازن قائم نہ رہنے کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے اس کی اسٹک بھی چھوٹ پر گر پڑی اور وہ خود بھی بری طرح سے گرنے ہی والی تھی کہ میں نے اسے بازوؤں میں تھام لیا' وہ بے حد خوفزدہ تھی' جانتی تھی کہ اگر وہ ان بلند و بالا سیڑھیوں سے گر جاتی تو شاید آج دوسری ٹانگ بھی تڑوا بیٹھتی ' اس کی مشکور نگاہیں مجھ پر جمی تھیں بس پھر کیا تھا میرا کام تو بن گیا۔