مدھم سی مسکراہٹ اس کے حسین چہرے پر پھیل گئی' اس نے کلاس میں داخل ہونے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ اس کے قدموں کی چاپ سے پہلے ٹک ٹک کی آواز سنائی دی' میری نظر بے اختیار اس کے قدموں کی طرف چلی گئی' وہ ایک ٹانگ سے معزور ' وہ مصنوعی ٹانگ کے سہارے چل رہی تھی' اس کے دوسرے ہاتھ میں بلیک اسٹک تھی' یہ منظر دیکھ کر تو میرے دانت کے نیچے گویا پتھر آ گیا ہو' دل چند لمحے پہلے اس کے حسن بے مثال کے قصیدے پڑھ رہا تھا' اب اسے دیکھ کر سخت بے زاری سی محسوس ہو رہی تھی۔
ایک تو اس کا قیامت خیز حسن اور دوسرا اس کی بے پناہ قابلیت وہ بی اے گولڈ میڈلسٹ تھی' مجھے اس سے حسد ہونے لگا' دل ہی دل میں نے اسے اپنا حریف بنا لیا' گمان غالب تو یہ تھا کہ باقی تمام لڑکیوں کی طرح وہ بھی میری وجاہت کی اسیر ہو جاۓ گی مگر ایسا نہیں ہوا' بلکہ بے نیازی میں وہ مجھ پہ بھی سبقت لے گئی اور میں بل کھا کر رہ گیا۔
وہ انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار تھی' وہ کہتے ہیں نہ کہ " خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے" مگر اس میں ذرا بھی اپنے حسن پہ فخر و غرور نہ تھا ' وہ چند دنوں میں ہی اسٹوڈنٹس میں مقبول ہو گئی۔
میں مرد تھا اور مرد تو عورت کو تسخیر کرنے کے جذبے سے مجبور ہوتا ہے اور عورت کو تسخیر کرنے کے لیے اس عورت کے قدموں میں بھی بیٹھنا پڑے تو بیٹھتا ہے' مجھے اس کی بے نیازی ہضم نہیں ہو رہی تھی' میں کیل کانٹوں سے لیس ہو کر میدان جنگ میں اتر گیا۔
وہ تنہا سنگی بینچ پر بیٹھی نوٹس بنانے میں مصروف تھی' میں خاموشی سے اس کے قریب جا کر بیٹھا تو وہ قدرے گھبرا کر سرک گئی۔
" ارے آپ تو مجھ سے یوں گھبرا رہی ہیں جیسے میرے سر پر دو سینگ اور میرے دو دانت ڈریکولہ کی طرح باہر نکلے ہوں۔" میں ازراہ مزاق بولا' وہ میری بات پر بے ساختہ سی ہنس پڑی' ہنستے ہوۓ وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اگر میں خود کو اس وقت نہ سنبھالتا تو شاید اس کو تسخیر کرنے کے چکر میں خود ہی حسن کے سمندر میں ڈوب جاتا۔
میں اس کی بے نیازی ختم کرنے کے لیے کاری ضربیں لگاتا رہتا مگر میرا مقصد ابھی پوری طرح حاصل نہیں ہو رہا تھا ' اس کے محتاط رویے کے پیچھے ایک وجہ یہ تھی کہ وہ سٹوڈنٹس سے میرے فلرٹی ہونے کے قصے سن چکی تھی۔
" مس عندلیب! کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟" میں نے مسکراتے ہوۓ اس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔
" دوست۔۔۔۔۔۔؟" اس کی آنکھوں میں ناگواری کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی۔
" کیوں میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔" میں نے ضبط کرتے ہوۓ کہا' مگر اندر پیچ و تاب کھا کے رہ گیا۔
" دیکھیں حاشر! میں لڑکے اور لڑکی کی دوستی کے خلاف ہوں' انسان اپنے ہم جنس دوستی میں ایزی رہتا ہے اور مجھے تو آپ کی بات ہی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ جس کے پہلے ہی اتنے دوست ہوں جس لڑکے اور لڑکیوں کی نہ ختم ہونے والی گنتی ہو اسے مجھ سے دوستی کی اتنی کیا ضرورت پڑ رہی ہے۔"
اس نے اپنی اسٹک پکڑی اور گہری طنزیہ نظر میرے پہ ڈالی اور اٹھ کر چلی گئی۔
" سمجھتی پتہ نہیں کیا ہے خود کو جیسے کوئی مس ورلڈ ہو؟" مجھے اپنی شکست برداشت نہیں ہو رہی تھی' مگر وہ مرد ہی کیا جو عورت کے سامنے اتنی آسانی سے شکست تسلیم کر لے' عندلیب عاصم میرے لیے چیلنج بن گئی تھی کئی دفعہ خود پہ غصہ بھی آتا کہ ایک سے ایک خوبصورت لڑکی میرے آگے پیچھے پھر رہی ہوتی ہے میں اس معذور لڑکی کے پیچھے کیوں وقت ضائع کر رہا ہوں ' مگر وہ مرد ہی کیا جو چیلنج میں نہ آۓ صنف مخالف کو شکست دینا مردوں کا محبوب ترین مشغلہ ہوتا ہے۔