SIZE
2 / 3

" میں اگلے ہفتے شہر جا رہا ہوں نوکری کے لیے۔" فرید نے یہ کہہ کر در حقیقت اسے ساکت کر دیا تھا۔

" شہر جا رہا ہے؟ نوکری مل گئی' اور مجھے پتا ہی نہیں چلا۔" سکتہ ٹوٹا تو یکے بعد دیگرے تینوں سوال اکٹھے پوچھ لیے۔

" مجھے یاد نہین رہا تجھے بتانا۔"

" یہ پہلی بات ہے' جو فرید نے رانو سے چھپائی ہے۔" یہ کہتے ہوۓ رانو کے نین کٹورے یکدم بھرنے لگے اور پھر بھر کر چھلکنے لگے۔

" ارے پگلی روتی کیون ہے۔ میں کام ' کاج میں مصروف تھا ۔ بتانا یاد نہ رہا۔" اس نے جواز پیش کر کے رانو کو تسلی دینی چاہی تھی۔

" کب جا رہا ہے؟" رانو نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا تھا۔

" بتایا نا اگلے ہفتے۔"

" ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کیا؟" جو ڈر کنڈلی مارے اندر بیٹھا تھا یک دم باہر نکل آیا۔

" ارے شہر جا رہا ہوں کسی دوسرے ملک نہیں جو تو یوں پریشان ہو رہی ہے۔" فرید اب کہ جھنجلایا سا بولا تھا۔

" میرے لیے تو تیرا شہر جانا بھی دوسرے ملک جیسا ہے۔" وہ اداسی سے بولی تھی۔

" سال بھر کی تو بات ہےپھر میں شادی کے بعد تجھے بھی وہاں اپنے پاس بلا لوں گا۔" مرد کا عورت کو زیر کرنے کا ازلی ہتھیار تسلی' دلاسے' امید' ان تین بیڑیوں کو عورت بڑے شوق سے اپنے گلے کا ہار بناتی ہے۔ اور رانو نے بھی ان بیڑیوں کو اپنا لیا تھا۔

" میں تیرا انتظار کروں گی فرید۔" اس کے جملے پر آس پاس کے درخت بڑی زور سے ہنسے تھے۔

" میں تیرے انتظار کی لاج رکھوں گا رانو۔" فرید نے عہد کیا تھا۔ سورج مرد کے اس جھوٹے وعدے پر اور غصہ ہوا تھا۔ اور اس کے غصے سے بڑھنے والی تپش اور زیادہ دھرتی کے سینے کو جلانے لگی تھی۔

اور یوں رانو انتظار کا لبادہ اوڑھ کے اپنی پوری زندگی اس انتظار کے نام کر چکی تھی۔ انتظار کی یہ بیڑیاں اس وقت اسے طلائی زیور سے بھی زیادہ خوب صورت لگ رہی تھیں' پر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ طلائی زیور سے بھی زیادہ خوب صورت بیڑیاں اس کی جوانی کا سارا رس چوس لیں گی۔ اور پھر اس کھوکھلے وجود کو سختی سے اپنے بس میں کر لیں گی۔ وہ نہیں جانتی تھی' قطعی نہیں جانتی تھی۔

انتظار کا یہ دیپ دو سال سے زائد عرصہ کاٹ چکا تھا۔ پر رانو اس دیپ کو روز امید کا تیل دینا نہ بھولتی تھی۔ دیپ تھک گیا تھا۔ پر رانو نہیں تھکی تھی۔ عورت ویسے بڑی کمزور ہوتی ہے پر مرد سے محبت کے مقابلے میں سخت چٹان بن جاتی ہے۔ رانو بھی چٹان بن گئی تھی۔ بنجر چٹان جس پر بارش کبھی پھول بھی نہیں کھلاتی۔

چار سال۔۔۔۔