انتظار کا دیپ چار سال پورے کر چکا تھا۔ پر اب تک اس کی تپسیا کا انت نہیں ہوا تھا۔ رانو کے بالوں میں چاندی کے تارے اگ آۓ تھے۔ مگر انتظار کا یہ دیپ ابھی تک بوڑھا نہ ہوا تھا۔ پر ہاں رانو کا دل ضرور بوڑھا ہوتا جا رہا تھا۔
" خالہ! تو رانو کو کیوں نہیں سمجھاتی' وہ فرید کو دل سے نکال دے۔ وہ شادی کر کے اپنی زندگی میں خوش و خرم ہے تو رانو کیوں اس ہرجائی کے پیچھے اپنی زندگی برباد کر رہی ہے۔" رانو کی سہیلی اظہر آج بطور خاص رانو کے گھر اس کی اماں سے بات کرنے آئی تھی۔ کیونکہ اس سے رانو کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔
" پتر! میں سمجھا سمجھا کر تھک چکی ہوں ' پر وہ سمجھتی نہیں ۔ یہ بھی بتا چکا ہوں کہ فرید شادی کر چکا ہے پر وہ مانتی نہیں ' بس یہی کہتی ہے کہ فرید میرے انتظار کی لاج ضرور رکھے گا۔" اماں یہ کہتے ہوۓ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔
" میں بات کرتی ہوں آج اس سے۔" اظہر یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر رانو کے پاس چلی آئی۔
" رانو اور کسی پر نہیں تو اپنی بوڑھی ماں پر ہی ترس کھا لے کیوں انہیں دکھ دیے جا رہی ہے۔ " اظہر نے غصے سے اسے جھنجوڑا تھا۔
" میں نے اماں کو کیا دکھ دیا ہے۔" وہ الٹا حیرت سے اس سے پوچھنے لگی۔
" تجھے اس کمبخت فرید کی ان دیکھی سب باتیں پتا ہیں' پاس رہتی ماں کے دل کا حال نہیں معلوم ' واہ رانو! تجھے اس دنیاوی عشق نے صحیح خوار کیا ہے۔" اظہر بے بسی کے مارے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی تھی۔
" میں اپنا وعدہ نہیں توڑ سکتی اظہر ' یہ انتظار کا دیپ میری محبت کی سانسیں ہے اگر اسے توڑ دیا تو میری محبت بھی مر جاۓ گی۔ نہیں ' میں ایسا ظلم نہیں کر سکتی' مجھے معاف کر دینا۔"
" فرید تجھے اللہ پوچھے گا۔ تو نے ایک ہنستی بستی زندگی اجاڑ دی ۔" اظہر دکھی دل اور نم انکھوں کے ساتھ واپس لوٹ آئی تھی۔
انتظار کی تپسیا برسوں گزر جانے کے بعد بھی ختم نہ ہوئی تھی۔ پر رانو کی زندگی ' اس پریم مدارن کی زندگی' آہستہ آہستہ ہوتے ہوۓ گھٹتی جا رہی تھی۔ انتظار کا یہ دیپ بڑا ہی طاقتور ثابت ہوا تھا۔ ایک پوری زندگی کھا گیا تھا۔ پر ابھی تک اس دیپ کا پیالہ نہ بھرا تھا۔
رانو آج بھی بوڑھے ' نسیں ابھرتے تھر تھر کانپتے ہاتھوں سے اس دیپ میں امید کا تیل ڈالتی تھی۔ آج بھی اس پریم مدارن کے من میں ایک یہی بات نقش تھی کہ وہ اس کے انتظار کی لاج ضرور رکھے گا۔
پریم رانو کو دیکھ کر ' اس مدارن کو دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا۔ اور یہی کہتا جا رہا تھا۔ " مجھے حاصل کرنے کے لیے بڑے دکھ اٹھانے پڑتے ہیں ۔" پر مدارن مجسم سوال بنی یہ پوچھ رہی ہے کہ پریم میں اٹھاۓ جانے والے دکھ ہمیشہ عورت کو ہی کیوں اٹھانے پڑتے ہیں۔