سیاہ افق پر سجے ان گنت ستارے آسمان کا حسن بڑھا رہے تھے۔ ہر سو ان ستاروں کی چمک دمک تھی۔ پر دھرتی میں ایک جگہ ایسی بھی تھی جہاں یہ ستارے' اپنی دمک میں ماند پڑ رہے تھے۔ وہ جگہ اماوس کی سیاہ رات کے اندھیرے میں ڈوبی دکھائی دے رہی تھی۔ اس جگہ کے اگر قریب جا کر دیکھا جاۓ تو وہاں ایک موم بتی اپنی زرد روشنی چلتی رکتی سانسوں کی طرح جلتی بجھتی دکھائی دے رہی تھی۔ جیسے کسی نے انتظار کا دیپ جلا رکھا ہو۔
یہ زرد پیلی روشنی' کسی کا انتظار تھی۔
اور اماوس کے اندھیرے والی جگہ مدارن کا گھر تھی۔
سورج' دھرتی کے کشادہ سینے کو کسی تندور کی طرح گرم لپٹوں سے دہکا رہا تھا۔ ان گرم لپٹوں کی جان لیوا تپش سے بچنے کے لیے انسان تو انسان ' چرند پرندبھی اپنے ٹھکانوں' گھونسلوں' میں دبکے پڑے تھے۔ پر ایسے منظر میں ایک شخص ایسا تھا جو کسی کے انتظار میں ان گرم لپٹوں کی پروا کیے بغیر اندھا دھند چلتا جا رہا تھا۔ اسے اپنی فکر نہیں تھی۔ اسے محو انتظار شخص کی فکر تڑپاۓ جا رہی تھی۔ کہ کسی نہ کسی طرح وہ وہاں پلک جھپکتے پہنچ جاۓ۔ اور چند لمحوں بعد یہ شخص اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ گیا تھا۔ اور اس کو منتظر دیکھ کر اس کے سوکھے لبوں پر یک دم مسکراہٹ کھل اٹھی۔
" رانو تو آ گئی۔" فرید نے خوشی سے اسے تکا تھا۔
" تو بلاتا تو میں کیسے نہ آتی۔" وہ بولی۔
" میں سمجھا کہ اس تپتے موسم میں شاید تو نہ آۓ' اور میں انتظار کرتے کرتے لوٹ جاؤں۔" فرید نے اپنا قیاس بتایا تھا۔
" ایسا کبھی نہیں ہو سکتا' تو جانتا ہے' یہ جو محبت کی آگ ہے نا یہ ہر آگ سے بڑھ کر ہوتی ہے جس کو یہ چھو جاۓ اس پہ پھر کسی آگ کا اثر نہیں ہوتا۔ اس نے فرید کا قیس رد کرتے ہوۓ کہا تھا۔
" آج کل تو بڑا فلسفہ بولنے لگی ہے' خیر تو ہے نا۔" اب کے فرید نے شرارت بھرے لہجے میں سوال کیا۔
" میں چٹی ان پڑھ کہاں فلسفہ جھاڑ سکتی ہوں۔ یہ تو بس اس محبت کے کمالات ہیں جو ہم جیسوں کو بھی کچھ نہ کچھ سکھا دیتی ہے۔" وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔
" اب بتا کیوں بلایا ہے مجھے۔" اس نے دریافت کیا۔