SIZE
4 / 6

کا' یہ دنیا سے مخالف سمت پر چلنے سے دنیا کی نظر میں آگے پیچھے جا رہی ہوں ۔ پھر بھی بضد ہوں کہ اسی طرح مخالف سمت پر منہ کر کے چلتی چلی جاؤں گی' میں سوچتے سوچتے سو گئی تھی۔

رات کے کسی پہر کسی نے دھیرے سے پیشانی پر ہاتھ پھیرا' بابا جانی سرہانے بیٹھے مسکرا رہے تھے۔

" کیا محسوس کر رہی ہو بیٹا ؟"

بابا جانی نے کچھ اس اپنائیت سے پوچھا کہ دل بھر آیا' آنکھ سے دو چار انسو بھی لڑھک گئے۔ بابا جانی ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور یہ کہتے جلدی سے کمرے سے نکل گئے کہ سوپ بنوا رہے ہیں۔

یہ باپ' بیٹی کے آنسوؤں سے اس قدر خوف کیوں کھاتے ہیں؟ میں سوچتے سوچتے اٹھ بیٹھی' اب جو دوسری سمت نظر کی تو ٹھٹک گئی۔ وہ کمرے کے دوسرے سرے پر رکھے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ بیٹھا مجھے بغور دیکھ رہا تھا ' میں نے جلدی سے آنسو پونچھ ڈالے۔

" تمہارا مسئلہ کیا ہے؟"

وہ اسی سختی سے بولا' میں اس کے منہ لگنے کی نہ تو اہل ہوں نہ ہی اس وقت ہمت تھی اور مجھے آج شام ہی بے عزتی کا ٹیکہ لگا کر اس نے ہفتے بھر کا کوٹہ پورا کر دیا تھا۔ پھر بھی میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔

" روٹی' کپڑا اور مکان۔"

وہ جھنجلا کر تیز لہجے میں گویا ہوا۔ " اصل میں بھرے پیٹ میں ایسے ہی ہری ہری سوجھتی ہے' پڑھی لکھی جاہل ہو تم ' کبھی زرا اپنے ارد گرد بھی دیکھو' کتنی سخت ہے یہ زندگی' کچھ لوگون کو دن بھر میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا ' کچھ محنت مزدوری کر کے سارا دن سڑکوں پر پھر پھر کر بڑے ہو جاتے ہیں۔ اسکول کی شکل تک نہیں دیکھتے' کہیں بلاوجہ کی دشمنی میں لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں' زندہ جلا رہے ہیں اور ایک تم ہو' سب کچھ ملا ہوا ہے پھر بھی' یہ قنوطیت طاری رکھنے سے کوئی بہت ہیروئین نہیں لگتیں تم اور سڑی سی لگنے لگتی ہو۔"

مشکل سے روکے ہوۓ آنسو پھر بہہ نکلے۔ وہ سناتے سناتے چپ ہو گیا۔ پھر اٹھ کر میرے سرہانے جس کرسی پر تھوڑی دیر پہلے بابا جانی بیٹھے ہوۓ تھے آ کر بیٹھ گیا۔

" کچھ ماموں جان کا ہی سوچو' وہ بیچارے ویسے ہی ممانی جان کی وجہ سے احساس جرم سے دبے رہتے ہیں۔' اوپر سے تم یوں بخار میں پڑ کر ' رو دھو کر اور بھی ان کا احساس جرم بڑھاتی رہتی ہو۔ ہمیشہ سمجھایا ہے کہ تم انوکھی نہیں ہو' ہوتا ہے اکثر ایسا ہی کہ سوتیلی ماں' اصل ماں نہیں بنتی بلکہ اپنے بچوں کے آنے پر تو بالکل ہی سوتیلی بن جاتی ہے ' مگر ماموں جان کا اس میں کیا قصور' ان کی نیت تو تم سے صاف ہی ہے ناں' وہ بیچارے تمہارا خیال رکھنے کی پوری کوشش تو کرتے ہیں۔ اب تم بھی تو کوئی چھوٹی بچی نہیں ہو ' خود اپنا خیال رکھ سکتی ہو۔"

وہ ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے ہوۓ اسٹیتھو اسکوپ سے معائنہ بھی کر رہا تھا' میں سردی کی وجہ سے کمبل گردن تک اوڑھے ہوۓ تھی۔ اس کے اچھی طرح سے معائنے کے بعد مجھے سوپ کا پیالہ پکڑا دیا جو تھوڑی دیر پہلے ملازمہ دے گئی تھی۔

بات صرف اتنی سی ہی تو نہین تھی۔ اس نے تو دو چار لفظوں میں میری پوری زندگی ہی سمیٹ دی تھی۔ بابا جانی نے دوسری کہنے کو میری خاطر کی تھی ۔ ماما کے آنے سے مجھے ماں کیا ملتی' مجھ سے تو پاپا جانی بھی دور ہو گئے۔ پہلے تو کم از کم بابا جانی تو مجھے میسر تھے۔ بغیر کسی خوف و ڈر کے مجھے گلے تو لگا لیتے تھے' گود میں بھی لیتے تھے' اکثر اسکول بھی چھوڑنے یا لینے آتے تھے' مگر ماما کے آتے ساتھ ہی بابا جانی سمٹ گئے۔

ایسے میں میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں بابا جانی کی دوسری شادی انہوں نے امی جان کے مرنے کے دوسرے ہی سال اس لیے کہ ان کی آٹھ سالہ بچی یعنی مجھے ماں کی اشد ضرورت تھی' مگر ضرورت تو میری کبھی پوری نہ ہو سکی بلکہ تشنگی اور بڑھ گئی۔ پانی کے قریب ہونے پر بھی پیاس برقرار رہی۔

میں نے اپنے ہوش سنبھالتے ہی ماما کو سمجھ لیا تھا۔ انہوں نے میری تربیت آتے کے ساتھ ہی چند ہی دنوں میں مکمل طور پر کر دی تھی اور تربیت یہی تھی کہ کچھ بھی ہومیں ماما سے کسی بھی قسم کی کوئی امید نہ رکھوں۔ مجھے یاد ہے کہ شروع میں تو بابا جانی بہت کوشش کرتے کہ ماما مجھے برداشت کر لیں' مگر دوسرے بھائی بہنوں کے اتے اور ان کے ہوش سنبھالنے تک بابا جانی نے بھی ہار مان لی تھی اور جس وجہ سے ماما اس گھر میں آئی تھیں۔ کہیں کسی کونے میں جا چبکی تھی۔

ویسے تو مجھے بھی گھر میں آرام' تحفظ ' تعلیم' روپیہ' پیسہ سب ہی تقریبا ماما کے بچوں جتنا ہی میسر تھا ' مگر پھر بھی۔ میری کوئی زمہ داری نہین لیتا تھا' میں گھنٹوں گھر سے باہر رہوں۔ باہر کسی حادثے کا شکار جاؤں' بیمار ہو جاؤں' کسی مشکل کا شکار ہو جاؤں' کوئی زمہ دار نہ تھا نہ ہی مجھے کسی کو پکارنے کی اجازت تھی۔ یہاں تک کہ بابا جانی بھی میری پکار پر اکثر خاموش ہی رہتے۔ بھرے ہوۓ گھر میں بھی تنہا تھی۔