اس نے مجھے واپس سیٹ پر بٹھاتے ہوۓ انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر کم پاوئڈر کو اندر بلایا تھا جو فورا اندر آ گیا تھا۔
" زاہد! ان کو گھر چھوڑ کر آؤ اور ان کا کوئی گھر والا ملے تو میرا پیغام دینا کہ میں نے مریضوں کی پک اینڈ ڈراپ کی سہولت نہیں دی ہوئی۔ اپنے اکیلے مریض اپنی زمہ داری پر بھیجا کریں ۔" میں نے اپنی صفائی میں کچھ منمنائی اور نا چاہتے ہوۓ بھی زاہد کا سہارا لیے کمرے سے باہر آ گئی۔
پورے راستے ڈگمگاتی رہی اور غصہ بھی کھاتی رہی۔ بیماری میں بھی میرا کوئی احسا س نہیں اسے ' بدتمیز ایک تو گھر پر بلایا تھا کہ آ کر دیکھ لے' مگر صاف مکر گیا اور حکم دے دیا کہ کلینک پر آ کر دکھاؤں۔ اوپر سے زلیل بھی دریا دلی سے کر رہا ہے۔ جیسے اس کا حق ہو۔ غصے کی ایک لہر اس پر چڑھ دوڑی' میں بھی تو زرا زرا سی بیماری کو گلے سے لگا کر رکھتی ہوں ۔ اب اگر یہ کھانسی ہر سردی میں ہوتی ہی ہے تو کیوں میں اس کے ناز اٹھاتی ہوں۔۔۔۔ پڑی رہوں کمرے میں اور چپ چاپ مر جاؤں ۔۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔۔۔ کھانسی سے مرنا بھی کوئی مرنا ہوا۔ جیسے شیر چوہے کی موت مر جاۓ' میں مرنے کے لیے ایسی معمولی بیماری کو ناکافی سمجھتی تھی۔۔۔۔ مطلب بیمار ہو کر ہی مرنا ہے تو کوئی ایسی انوکھی بیماری ہو' جس کا نام بھی مشکل ہو اور جو لا علاج ہو' جس کا چرچا پورے شہر میں نہیں تو کم از کم محلے بھر میں تو ہو کہ مجھے ایسی جان لیوا بیماری لگ گئی ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں افسوس امڈ آۓ ۔ لہجوں میں میرے لیے مٹھاس بھر جاۓ۔ ایسے میں کسی کو شک بھی نہیں ہو گا اور پھر کھانسی سے اول تو میرے مرنے کے بہت ہی کم چانس تھے دوسری تکلیف دہ کھانسی کے دورے اور شدید بخار سہنے کی کوئی حد ہوتی ہے۔
میں تنگ آ کر آخر کار ڈاکٹر یعنی اپنے ہھوپھی زاد کے پاس دوڑ جاتی' مگر یہاں اقس بار کچھ غلطی یہ تھی کہ کافی طبعیت خراب ہونے پر میں اس کے پاس پہنچی تھی اور پھر اچھا خاصا دوائی لیتے لیتے خود سے کسی بات پر ناراض ہو کر دوائی چھوڑ بیٹھی تھی اور اب جو پورے گھر میں اکیلی ہوئی اور طبعیت کچھ زیادہ ناساز ہوئی تو ڈر کے پھر ڈاکٹر کے پاس دوڑی آئی جس کا خمیازہ بھی بھگت لیا تھا اور اپنی حد سے زیادہ بے عزتی بھی کروا لی تھی۔ چلو اب سکون رہے گا۔ ہم جیسون کو دن میں ایک بار کسی نہ کسی سے زلیل ہونے کا ایسا چسکا لگا رہتا ہے جیسے کوئی بڑی بیماری سے بچنے والا ٹیکہ۔۔۔۔ کچھ بھی ہو ٹیکہ ۔۔۔۔ کچھ بھی ہو ٹیکہ لگوانا ضروری ہے' بے عزتی کا ٹیکہ' ہونہہ!
دو چار گھر چھوڑ کر ہی میرا گھر تھا۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھانے پر بھی چند منٹ میں ہی گھر آ گیا۔ گھر پر کوئی ہوتا تو زاہد اس کا پیغام دیتا۔ میرے پاس گیٹ کی چابی تھی۔ میں شکریہ کہہ کر گھر میں داخل ہو گئی اور چکراتی۔۔۔۔ ڈولتی۔۔۔۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر گر گئی۔
سب گھر والے ایک شادی میں گئے ہوۓ تھےاور میں نے اکیلے کلینک جانے کے ڈر سے ہی اس کو فون کیا تھا کہ مجھے کلینک سے واپسی پر دیکھتا جاۓ'مگر اس نے بد تمیزی سے انکار کر کے مجھے کلینک میں بلایا تھا۔ ویسے تو اکثر ہی وہ کلینک سے ذاہد کو دوڑاتا اور کبھی چاۓ تو کبھی پانی منگوا لیتا تھا' مگر بیمار دیکھنے کے لیے کبھی نہ آتا' یہاں تک کے بابا جانی بھی موسمی بیماری کی دوائی لینے اس کی کلینک جانے پر مجبور تھے۔
اس پر بھی سب اس سے خوش تھے۔ کیونکہ اس قدر اکھڑا ۔۔۔۔ بد دماغ اور بد تمیز صرف میرے ساتھ ہی تھا۔ خاندان کے باقی لوگ اس کی خوش اخلاقی کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے اور میں اکثر حیران ہوتی ' میں جس طرح لوگوں ۔۔۔۔ ان کے رویوں اور حالات کو دیکھتی ہوں اس طرح دنیا ہرگز نہیں دیکھتی' میں آج تک دنیا سے الگ تھلگ۔۔۔۔۔ دوسری نہیں بلکہ شاید تیسری سمت میں کیوں سوچتی ہوں؟ اور اسی وجہ سے دنیا کی نظر میں ناکام ہوں۔۔۔۔ کیا جواز ہے میرے پاس ' کوئی حیلہ ' بہانہ اپنی نا لائقی ' نا اہلی اور نا کام