سب کے ہوتے ہوۓ بھی اکیلی تھی۔ اوپر سے کئی سردیوں سے یہی ہونے لگا۔ میری کھانسی بڑھ جاتی اور میں نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کا علاج کرواتی جاتی۔ کبھی کبھی دل چاہتا کہ کوئی ہو جو محبت سے دوائی دے۔ بخار میں تپتی پیشانی پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھے یا پھر کبھی آ کر بس دو چار منٹ پاس بیٹھ کر حال چال ہی پوچھ لے۔
ایسے میں پھوپھی جان ہی تھیں جن سے میں حال احوال کہہ سن لیتی تھی' مگر ماما کو یہ بات بھی پسند نہیں تھی۔ ابھی پچھلے دنوں پھوپھی جان نے بابا جان کو میرا دھیان رکھنے کے لیے دو چار لفظ ہی کہے تھے کہ ماما کا پارا چڑح گیا تھا اور بابا جان دونوں کے درمیان صلح صفائی ابھی تک نہ کروا سکے تھے اور اسی وجہ سے پھوپھی جان مجھے ملنے بھی نہیں ائیں تھیں ابھی تک۔ ورنہ ہر سردی میں وہ ایسے وقت میں میرے پاس رہنے آ جاتی تھیں۔۔۔۔ اسی وجہ سے اس بار تنہائی کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھی۔
" تمہارا فون کہاں ہے؟"
اس نے میرے سوپ پی کر فارغ ہوتے کے ساتھ ہی پوچھا' میں نے سائیڈ ٹیبل کی طرف دیکھا تو وہ اٹھ کر بکھری ہوئی دوائیوں ' بسکٹ کے ڈبوں اور دیگر چیزون کے درمیان میرا فون ڈھونڈنے لگا۔ فون ملا جو کہ چارج نہ کیے جانے پر بند پڑا تھا۔ تب ہی آج ایک بار بھی بابا جانی نے فون کر کے میرا حال احوال نہیں پوچھا تھا اس نے مجھے تنقیدی نظروں سے دیکھ کر چارجر ڈھونڈ کر فون دوبارہ اسٹارٹ کر دیا تھا جو اپنی مخصوص دھن سناتا زندہ ہو گیا۔
دل میں کسک جاگی۔ ایسے ہی کاش کوئی مجھ پر بھی مہربانی کر دے' میں کب سے بہت سی بے جان چیزوں کے درمیان خود بھی بے جان ہوئی پڑی ہوں' کوئی مجھے بھی اسی طرح میری مطلب کی توانائی سے میرا سر جوڑ کر مجھے زندہ کرنے کی سعی کر لے' شاید میں بھی اس طرح دھن سناتی' گنگناتی جاگ اٹھوں' زندہ ہو جاؤں' واقعی میرا مسئلہ کیا ہے؟ موت؟ زندگی؟ یا پھر بس وجود ' مجھے کہیں کبھی کوئی میرے اس وجود۔۔۔۔ میرے ہونے کا احساس تو دلاۓ ۔۔۔ کبھی کوئی اس طرح میرے کونے میں مجھے تلاش تو کرے ' کیا مجھ سے' میری زندگی سے کسی کو کچھ بھی حاصل ہونے کی امید نہیں' کیا واقعی کسی کو میری کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔؟
کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھااور لاؤنج میں بھی کبھار کوئی گزرتا ادھر بھی نظر کر لیتا۔ تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹک کر کمرے میں' اسے اور مجھے بغور دیکھتا اور پھر آگے بڑھ جاتا۔
" امی نے مجھے منع کیا تھا کہ تم سے اب نہ ملوں۔۔۔۔" اس نے ایک دو بار کسی کو گزرتے کمرے میں نظر ڈالتے دیکھتے ہوۓ کہا۔
میں ایک بار پھر سسک اٹھی' پھوپھی جان کیا اب وہ بھی مجھ سے بدلے لیں گی؟ ماما کی بد تہذیبی اور بابا جانی کی خاموشی کی سزا مجھے دیں گی؟ پھوپھی جان کو معلوم بھی ہے کہ میں بیمار ہوں پھر بھی انہوں نے اس اکھڑ کو اور بھی بد لحاظ ہو جانے کا کہہ دیا۔ گو میں اس سے بات کرنا نہیں چاہتی تھی پھر بھی اس کی بات نے مجھے ایسا دکھ دیا تھا کہ میں لڑکھڑاتی زبان سے پوچھ بیٹھی۔
" تو کیا؟ تو کیا اب تم مجھ سے کبھی نہیں ملو گے؟"
میرے سوال پر مجھ پر ایک نظر بے نیازی سے ڈالتا وہ فخریہ سا مسکرا اٹھا۔