مجھے جی بھر کے تاؤ آیا تھا۔ " میں بھی ایسا ویسا نہیں ہوں' سمجھیں۔" یہ کہہ کر میں گاڑی بھگا لایا تھا۔ وہ وہیں کھڑی حیرت سے کچھ سوچتی رہی۔ سوچتی رہی۔ گوتم بدھ کی نواسی کہیں کی۔ منہ پھاڑ کر مجھ جیسے لڑکے کو کہہ دیا۔ میں ایسی ویسی لڑکی نہیں تو کیا میں ایسا ویسا لڑکا ہوں۔ ہونہہ ہونہہ۔۔۔
سویٹ پی کی بیلوں پہ فروری کی بارش جم جم کر برستی رہی۔ زمین پر پانی کے بلبلے بنتے' بگڑتے رہےاور میں نے اپنی محبت کا بلبلہ اس وقت پھوڑا جب وہ ادبی ناولز کا ڈھیر اٹھاۓ بمشکل سانس لیتے سامنے سے گزری تھی۔
" آئی لو یو' مینا حفیظ۔"
آآآآآآ ۔۔۔۔۔ علی پور کا ایلی ' راجہ گدھ' اداس نسلیں ' الکھ نگری ایک ایک کر کے گری تھیں میں نے بھی ایک ایک کر کے اٹھا لیں۔
مینا حفیظ سکتے سے نکلی مجھ پر چلائی۔ " آر یو میڈ۔" کان میں اٹکی پنسل اچھلی اڑ کر گر پڑی میں اٹھانے کو جھکا اور ساری اٹھائی ہوئی کتابیں گرا بیٹھا۔ خیر دوبارہ اٹھانے کی غلطی قطعا نہیں کی اور اسے صرف اتنا کہا۔ " یس' آئی ایم میڈ۔" یہ کہہ کر لائبریری میں رکا نہیں۔ بلکہ تیز تیز چلتا " احاطہ سکوت" میں گہرا سکوت پھیلا کر باہر آ گیا۔ " میرا پیغام محبت ہے' جہاں تک پہنچے۔"
" آپ پچھلے چار ماہ سے برابر مجھے پروپوز کر رہے ہیں اور آپ کو غلط فہمی بھی ہے کہ آپ مجھ سے طوفانی قسم کی محبت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ آپ کی حیثیت اور میری حیثیت میں زمین آسمان کا فرق ہے میں ہر بار کی طرح آپ کا پروپوزل ریجیکٹ کرتی ہوں۔" کافی کے بھاپ اڑاتے کپ کے کناروں پر انگلی پھیرتے اس کا جواب مجھ تک پہنچا تھا۔
میرا دل چاہا اس کا کچھوے والا پیپر ویٹ اٹھا کر اپنے سر میں دے ماروں زخمی محبت۔۔۔۔
" میں انسانوں کے وجود کا قائل ہوں حیثیت مرتبے میرے لیے ثانوی چیز ہیں۔" میں نے ہمیشہ کا جواب اس تک پہنچایا اور وہ ہمیشہ کی طرح مجھے دیکھتی رہی' دیکھتی رہی۔
میں نے کچھ الفاظ کا اضافہ کیا۔ " میں اپ کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔" میں نے کافی لہک کر کہا تھا۔
گوتم بدھ کی نواسی کو میرا لہکنا زرا نہ بھایا تھا۔
" میرے لیے جان دے سکتے ہو؟" یوں لگا ارد گرد برف باری شروع ہو اور مینا حفیظ برف کی بجاۓ میرا سنو مین بنانے چلی ہو۔
" جان کے علاوہ کچھ مانگ لو نا۔" جانے ٹائی کی گرہ کیوں تنگ ہونے لگی ہے۔
" اگر جان ہی چاہیے ہو تو؟" مینا حفیظ پہلی بار مسکرائی تھی۔ شاید زندگی میں پہلی ' بار یہ میرا اندازہ تھا اور یہ الگ بات ہے کہ میرے لگاۓ گئے سارے اندازے غلط ہی ہوتے ہیں/
" دے دوں گا۔" اس کی جادوئی مسکراہٹ نے مجھ میں چابی بھر دی تھی' واؤ
" جان نہیں چاہیے۔" خونخوار حسینہ نے کافی کا کپ اٹھا کر لمبی سی چسکی لی تھی' اڑتی ہوئی بھاپ۔
" ایں! تو پھر ؟" میں نے سوالیہ نظریں اس پر ٹکا دی تھیں۔ وہ سوچتی رہی۔ پھر بولی تھی۔