" میں تم سے بہار کی تعریف چاہتی ہوں۔ زندگی کے الگ الگ شعبوں سے ' پیشوں سے وابستہ لوگوں سے تم بہار کی تعریف طلب کر کے لے آؤ میرے لیے۔" مینا حفیظ نے یہ شرط رکھی تھی۔ میں حیران تھا اور آج تک ہوں' وہ کتنی عجیب اور مختلف سی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر وہ ایسی نہ ہوتی تو صدام حسین کو کبھی اس سے محبت ہی نہ ہوتی۔ اس نے میرے سامنے ایک سوال رکھا ہے جو ہزار جواب رکھتا ہے۔
" بہار کے لیے اٹھاۓ گئے سوالوں کے جواب بہار میں ہی ملا کرتے ہیں۔"
اور میں نے بہار کا سوال سب سے پہلے حالی روڈ کے مصور کے سامنے رکھا تھا۔ مصور نے برش کان کی گرفت میں اٹکایا' مجھے لگا کہیں مینا کی پنسل کی طرح مصور کا برش بھی نہ لڑھک جاۓ۔
مصور نے جواب دیا تھا۔ " بہار رنگوں کے عروج و زوال سے گندھی ایک پہیلی ہے جو تخلیق کے دائروں میں گھومتی پھرتی ہے۔ رنگ بہار کا اشارہ ہیں۔" میں نے مصور کا قول " بہار بک" میں نوٹ کر لیا تھا۔
پھر میں نے بہار کا سوال پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھی ایک کہانی کار سے پوچھا تھا۔ وہ پہلے تو ہنستی رہی اور اپنے الجھے بالوں کا گھونسلہ دائیں بائیں گھماتی رہی۔ پھر خواب ناک آواز میں بولی تھی۔
" میں اپنی کہانی کے کرداروں کے ساتھ ہنستی روتی ہوں۔ ہم ایک دوسرے کے اچھے ساتھی ہیں اور جب میں ان کی کہانی مکمل کر لیتی ہوں تو وہ لمحہ بہار ہوتا ہے۔" اس دن کہانی کار خاتون نے مجھے چار کپ چاۓ کے پلاۓ تھے۔ مجھے چاۓ کے وہ " چار" کپ آج بھی یاد ہیں۔
وائلن بجاتے عیسائی لڑکے نے بہار بک میں بہار کا جواب لکھا۔ " اور میں اس وقت راحت محسوس کرتا ہوں ' جب میرے وائلن کی آواز کسی کو خوشی دیتی ہے' کیا یہ بہار سے کم ہے؟"
بہرحال میں یہ نہیں بھول سکتا کہ ابتدا میں اس نے کوئی خوفناک ساز بجا کر مجھے ڈرایا ضرور تھا۔ ناٹی بواۓ۔
تندور میں روٹیاں لگاتی رزق حلال کی شیدائی حلیمہ بی کا جواب مجھے بڑا پسند آیا تھا۔ " وے پتر' جان رکھ ' جے تیرے دل وچ ایمان دا بوٹا لگا اے' تاں' او وقت بہار دا اے۔"
بہار کے سوال نے مجھے چینی پروفیسر فوکاک کے سامنے کھڑا کیا۔ ان کے بال بہت چمکدار اور سیاہ تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں ذہانت سے بھرپور تھیں۔ وہ لحظہ بھر کو سوچتے رہے' پھر بولے۔
" صدام! ہر وہ ساعت بہار ہے جب تک معلم طالب کو ایمان داری سے علم سکھاتا رہے۔" یہ کہہ کر پروفیسر فوکاک نے اپنی چمک دار سیاہ بالوں والی وگ شان بے نیازی سے اتار کر گلوب پر لٹکا دی۔
میں ہکا بکا دیکھتا رہا' کیونکہ میں ان سے کم و بیش تین بار ان کے بالوں کی تعریف کر چکا تھا۔ یہ شرمندگی اور میرا تو جیسے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہونہہ۔۔۔۔
بہار میں ہی بہاروں کے جواب لے کر میں مینا حفیظ کے پاس پہنچ گیا تھا ' بہار بک سے میں بہار کے جواب اسے سنا رہا تھا۔ اور وہ ہنستی ہوئی کچھوے والا اپنا بادارو نایاب پیپر ویٹ گھما رہی تھی۔
سویٹ پی کی بیلوں پر بہار کی تتلیاں منڈلا رہی ہیں ۔ مینا حفیظ نے مجھے دیکھا ہے۔
" تمہارے لیے بہار کیا ہے؟" مقدس خاموشیوں میں بہاریں میری مدد کو آن پہنچی ہیں۔