پردے کی ڈوریاں اٹھتی چلی جاتی ہیں۔۔۔ ویرانیوں کے مناظر میں سے سب سے ویران منظر ہے۔۔۔۔ ہر طرف خزاں کے خشک پتے بکھرے ہوۓ ہیں۔۔۔۔ ہوائیں بین کر رہی ہیں۔۔۔ زنجیروں میں جکڑی انار کلی کے آگے دیوار اٹھائی جا رہی ہے ۔۔۔۔ زنجیروں میں بندھا وجود لہولہان ہو چکا ہے ۔۔۔ پہلی اینٹ کے بعد دوسری۔۔۔۔ دم گھٹ رہا ہے۔۔۔۔ وہ روتی ہوئی کہتی ہے۔
" وقت کے حکمران کو اختیار نہیں کہ دلوں کے ملن میں خار بچھاۓ ۔۔۔ انار کلی اور سلیم کا رشتہ حیات سے سانس' راگ سے ساز' گل سے خوشبو ' پردوں سے اڑان تک کا ہے۔۔۔ ہمارے عشق کی حقیقت پر فرشتے حیراں ہیں ۔۔۔ موسموں کی خوب صورتی عشق سے ہے ۔۔۔۔ اگر عشق نہیں تو ہر بہار خزاں ہے جہاں صرف خشک پتوں کا شور ہے۔۔۔۔" دیوار کے پار انار کلی کا وجود غائب ہو جاتا ہے۔۔۔ سسکتی آواز باقی ہے۔
پردہ گرتا ہے۔۔۔۔ ہال کی روشنیوں میں بیٹھے تماشائی ورطہ حیرت میں ہیں۔۔۔ ہال کی دیواروں پر لگے دوپٹوں میں چھید ہونے لگتے ہیں۔۔۔۔ اور مردہ پھول فرش پر ساکت نظر آتے ہیں ۔ پردہ اٹھتا چلا جاتا ہے ۔۔۔ دیوار کے ساتھ اکڑوں بیٹھا سلیم آنکھوں میں نمی کا سمندر لیے بیٹھا ہے۔۔۔ وہ دیوار پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔۔۔۔ شدت اور تڑپ سے ۔۔۔۔ اور وہ روتے ہوۓ مخصوص لفظوں کی تکرار کیے جاتا ہے۔
" تم جانتی ہو نا انار کلی۔۔۔۔ وجود خاک ہیں اور روح امر ہے۔۔۔ سب کو لگتا ہے وجود مٹا دینے سے عشق مٹ جاتا ہے۔۔۔۔ سب نادان ہیں۔۔۔۔ دلوں میں جلتی عشق کی مشعلوں پر کبھی زوال نہیں آتا ۔۔۔ تم سن رہی ہو ناں انار کلی۔۔۔۔؟" سلیم کا سوال ہواؤں کے شور میں دبنے لگتا ہے۔ دیوار کے پار زنجیر ہلنے کی آواز آتی ہےاور آخری دم توڑتی سسکی قطبین میں بکھر جاتی ہے۔
" سلیم۔۔۔۔ حاکم وقت کو کہنا انار کلی اور سلیم کے عشق کی پختہ عمارت پر دیواریں اٹھا دینے سے حاصل کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ بہاروں کے موسموں سے خزاؤں کے آنے تک لفظ عشق دہرایا جاۓ گا۔۔۔۔ عشق کا کلمہ گونج رکھتا ہےجو باز گشت ہے بار بار پلٹے گی۔۔۔۔"
ادھر سلیم دیوار پر ہاتھ رکھتا ہے اور دوسری طرف انار کلی کے لہو آلود ہاتھ اٹھتے ہیں ۔۔۔۔ عشق روح کی کھیتی کا سنہری بیج ہے۔۔۔۔ جو عشق زادے پیدا کرتا ہے ۔۔۔ اور یہ کام برسوں سے جاری ہے۔۔۔۔ جاری رہے گا ۔۔۔ فنا سے بقا تک ۔۔۔ ابتدا سے انتہا تک۔ پردہ گرتا ہے۔
ہال میں سناٹا ہے۔۔۔۔ منجمد تماشائی کھڑے ہیں۔۔۔۔ ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملتا ہے اور یونیورسٹی کی دیواریں لرز جاتی ہیں ۔۔۔ آدھا گھنٹہ اور جانے کتنے لمحوں تک تالیاں بجتی ہیں ۔۔۔۔ اسٹیج پر مس نیلم مائیک تھامے اپنی ہیل کی ٹک ٹک پر جزبز ہوتی ہوئی کہہ رہی تھیں۔
" ڈئیر اسٹوڈنٹس۔۔۔۔ ہر سال کے آخر پر تقریب میں ڈرامہ پیش کیا جاتا رہا ہے مگر آپ لوگوں کی پزیرائی دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ڈرامہ " انار کلی اک لازوال عشق" نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑے ہیں۔۔۔۔ میں اپنی پیاری اسٹوڈنٹ " عقیدت " کو مبارک باد دیتی ہوں کہ جنہوں نے میرے بے تحاشا اصرار پر انار کلی کا رول کیا۔۔۔ اس کے علاوہ اپنے شہزادہ سلیم مسٹر شہریار بھی ڈھیروں مبارک باد کے مستحق ہیں۔۔۔"