SIZE
1 / 12

یہ یونیورسٹی کے تین بڑے کمروں کے بائیں طرف بنے ہال کا منظر ہے۔ دیعاروں پر سرخ اور سنہری رنگ کے پردے لٹکاۓ گئے ہیں جن کے سروں پر چھوٹی ٹوکریوں میں گلاب کے پھول بھرے ہوۓ ہیں۔ ہال کی اونچی چھت پر لگے فانوس میں ست رنگی روشنیوں کی جھلک واضح ہے۔سارے تماشائی دم بخود یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ دفعتا ساری لائٹس بھجتی ہیں اور پردہ آہستہ آہستہ اٹھتا ہے۔ پردے کی اوٹ سے وہ لڑکی بانکپن سے چلتی ہوئی اسٹیج پر آن رکتی ہے۔ اس لڑکی نے چوڑی دار پاجامہ پہن رکھا تھا۔۔۔۔ فراک کے کناروں کو اس نے چٹکیوں سے پکڑ رکھا تھا۔۔۔۔ ایک دودھیا روشنی کا دھبا اس کے وجود کو گھیر لیتا ہے۔۔۔۔ اس کا لباس بہت شاندار تھا۔۔۔ سرخ کم خواب کا گھیر دار فراک' جو سونے کے بٹنوں سے سجا لگتا تھا اور سنہری جھالر کی قطاروں سے چمک رہا تھا جو اس کے چاروں طرف لپٹی نظر آتی تھی۔۔۔۔ اس کے نازک پیروں کا کھسہ چمک رہا تھا۔۔۔ وہ لڑکی آہستہ سے کچھ بولتی ہے۔

" تم کہاں ہو سلیم۔۔۔۔؟" روشنی کا دھبا ایک لڑکے کے چہرے پر پڑتا ہے جو ایک مصنوعی چٹان سے ٹیک لگاۓ بیٹھا ہے۔۔۔ اس کا لباس شاہانہ ہے ۔۔۔۔ رنگت سنہری ہے جیسے کوہ قاف کے جگنوؤں کی ہو۔۔۔۔

" میں تمہارے دل میں ہوں۔۔۔ انار کلی۔۔۔۔۔" انار کلی نے آواز کی سمت کا تعین کیا اور چپکے سے اپنے مخملی ہاتھوں کو سلیم کی آنکھوں پر رکھ دیا ۔۔۔ سلیم کی یونانی دیوتا کی سی ہنسی سنائی دیتی ہے۔

" سارے گلوں کی خوشبوؤں کے آگے تمہارے ہاتھوں کی خوشبو جدا ہے' سارے رنگوں کے ہجوم میں تمہارے وجود کا رنگ اعلا ہے۔۔۔۔" انار کلی اس کے قریب آن بیٹھتی ہے۔۔۔ اس کے لمبے بال فرش پر کالی چادر کی طرح بچھے ہوۓ ہیں۔

" سلیم۔۔۔۔ میری زندگی میری سانسوں سے نہیں تم سے ہے۔۔۔۔ جزبات کے اعلی درجوں میں سے پہلے درجے' عشق پر کھڑی ہوں۔۔۔ احساس قربت سوار ہے۔۔۔۔" سنہری آنکھوں میں سنہرا مدو جزر اٹھانے لگا تھا ۔۔۔ سلیم نے اسے کندھے سے لگایا تھا۔

" عشق کے آسمان پر ہم عشق زادوں کا وجود ثبت کیا جا چکا۔۔۔۔ رب کے سوا کسی کو اختیار نہیں کے توڑے دو دل ' جو جڑ چکے ہیں۔۔۔۔" انار کلی آنکھوں میں آس لیے بیٹھتی ہے۔ پردہ گرتا ہے۔

تماشائی دم بخود چہروں کے ساتھ حیرت کی بکل اوڑھے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے جسم حرارت سے خالی ہو اور دل دھڑکنوں سے خالی ہو۔۔۔۔ سناٹے کا سحر طاری ہے۔