مس نیلم کی بات پر سارے اسٹوڈنٹس نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔۔۔ ڈائس زور سے بجاۓ گئے تھے اور سیٹیوں کی آوازوں سے پوری یونیورسٹی گونج رہی تھی۔ اہستہ اہستہ ہال کالی ہو جاتا ہے۔۔۔ فرش پر گری کچلی ہوئی پتیاں ادھر ادھر اڑنے لگتی ہیں۔
میرا دوست' میرا حبیب دم آخر پر ہے
میں کیا کروں اے خدا' میں ڈرا ہوا ہوں!
اسے اب جانا ہے وہ نہیں ٹھہر سکتا
اور ہوائیں بھاگی بھاگی کہتی پھرتی ہیں
انار کلی کہتی ہے رنگ عشق جاوداں ہے۔۔۔۔
ڈریسنگ روم میں چیزیں ادھر ادھر پھینکے جانے کا ہلکا سا شور تھا ۔۔۔ گلاس ونڈو کے پار سہ پہر شام کے سانچے میں ڈھلنے کو تیار کھڑی تھی۔۔۔۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں کھڑی تھی جیسے۔۔۔۔ حقیقی عکس لگتا تھا۔۔۔۔ کلائی پر الٹی ہوئی واچ کو سیدھا کیا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ حرا اس کے پیچھے کھڑی اس کے لمبے بالوں میں سے احتیاط سے پینز نکال رہی تھی۔۔۔۔ ساتھ' ساتھ اس کی باتیں بھی جاری تھیں۔
" عقیدت رئیلی یو ور لکنگ ویری بیوٹی فل"
عقیدت نے آئینے میں نظر آتے اس کے عکس پر نظریں جمائی تھیں ۔۔۔۔
" باتیں کم کرو حرا۔۔۔ وہ باہر کھڑا غصہ ہو رہا ہو گا۔۔۔۔ میں اسے کوئی ایسا موقع نہیں دینا چاہتی۔۔۔۔" حرا بائیں طرف کی پنیں نکال رہی تھی۔
" غصہ کیوں ہو رہا ہو گا۔۔۔؟" عقیدت نے ٹھنڈی سانس لی تھی ۔۔۔ چہرے پر تفکر کی چھاپ تھی۔
" جانے شہریار نے کیسے مس نیلم کے کہنے پر ڈرامہ میں ایکٹ کرنے پر ہامی بھر لی ۔۔۔۔ اسے آخری لمحے تک پتا نہیں تھا کہ میں اس کے مقابل ہوں گی۔۔۔۔ آج میری خیر نہیں ہے۔۔۔ کاش ' میں مس نیلم کی بات نہ ہی مانتی ۔۔۔۔" حرا اب آخری پن نکال رہی تھی۔۔۔۔
" ڈونٹ وری عقیدت۔۔۔ وہ چھوٹا بچہ نہیں ہے۔۔۔۔ زندگی میں ایسے موقعے بار بار نہیں اتے۔۔۔۔" وہ اسے تسلی دے رہی تھی۔۔۔۔ عقیدت نے مسکارا لگی پلکوں کو بار بار جھپکا تھا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کسی نے چھوٹے پتھر رکھ دیے ہوں۔۔۔ دروازہ ناک کر کے وہ اندر آیا تھا۔۔۔۔ اور مخاطب حرا سے ہی ہوا تھا ورنہ اس پر تو ایک خشمگیں نظر ہی ڈالی تھی۔
" کتنا وقت لگے گا ۔۔۔۔ شام ہونے والی ہے ۔۔۔۔" حرا نے بوکھلاتے ہوۓ کہا تھا۔
" آپ صوفہ پر بیٹھ جائیں۔۔۔ بس دس منٹ لگیں گے۔۔۔" شہزادہ سلیم چپ چاپ صوفہ پر بیٹھ کر ٹیبل پر پڑا میگزین اٹھا کر پڑھنے لگا تھا۔۔۔۔ اک پل کو نظر اٹھی تھی۔۔۔ لانبی پلکیں ' میک اپ سے سنہری چمکتا چہرہ۔۔۔۔
عقیدت نے اسپنج گیلا کر کے حرا کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔ حرا اب اس کے چہرے پر اب گیلا اسپنج پھیر رہی تھی۔۔۔ یونیورسٹی کے احاطے میں جلتے ست رنگی بلب جل اٹھے تھے۔۔۔ دھماکے سے دروازہ کھلا تھا اور مس نیلم ہانپتی ' کانپتی اپنے بے ڈول وجود کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھیں۔