اس گھر میں بہت افراد تھے دادی' تایا ابو' تائی امی' ایوب بھائی' زہرا آپا' فریدون' ہانیہ' بابا' امی اور پھرامی کے چلے جانے کے بعد ماما آ گئیں۔۔۔ ماما کی گود میں انوشے آئی تو صبا کہیں پس منظر میں ہی چلی گئی ' پھر بابا اور ماما انوشے کو لے کر انگلینڈ چلے گئے اور وہ وہیں دودھیال میں ہی رہ گئی۔ شروع شروع میں بابا اس کے نام پر رقم بھیجتے رہے پھر یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ انوشے بڑی ہو گئی تھی اور اس کی پڑھائی کے اخراجات بھی بڑھ گئے تھے ۔ شاید اسی لیے انہوں نے صبا کے لیے رقم بھیجنی بند کر دی ۔ لا شعوری طور پر ہی' لیکن گھر کے افراد کا رویہ بھی اس کے ساتھ ویسا نہ رہا' جیسا امی اور بابا کی موجودگی میں تھا۔ وہ تین سال کی تھی جب امی اور بابا نے اسے یتیم خانے سے گود لیا تھا' تب سے وہ ایوب سلیمان کی شخصیت سے متاثر تھی۔ زمانہ طالب علمی مین وہ ذہین طالب علم تھا ۔ دراز قد' صحت مند' متناسب جسامت' بھاری اواز اور اس پر سنجیدگی۔ وہ جیسے جیسے عمر کی منازل طے کرتا گیا اس کی شخصیت کا یہ تاثر اور بھی سحر انگیز ہوتا گیا۔ صبا نور کو پتا ہی نہ چلا کہ کب ایوب سلیمان نے زندگی میں سب سے اہم مقام حاصل کر لیا۔
سب لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔ رویت ہلال کمیٹی کچھ ہی دیر میں چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے بارے میں اعلان کرنے والی تھی۔ وہ سب کے لیے چاۓ بنا کر لائی جب چاند کے نظر آنے کی خبر چلنے لگی' خوشی کی لہر دوڑ گئی' سب ایک دوسرے کو رمضان کی مبارک باد دینے لگے۔
" سنو صبا۔۔۔۔ صالحہ سے پوچھ کر سحری کے لیے آٹا بھی گوندھ دو۔۔۔ وہ فریدون اور ہانیہ تو قیمہ ہی کھائیں گے ' ہری مرچ ڈال کر قیمہ بھی یاد سے بھون دینا۔۔۔ سنو۔۔۔۔ دہی بھی گھر پہ ہی جما دو۔۔۔۔ سحری تک تیار ہو دہی۔" دادی کا ہدایت نامہ شروع ہو گیا اور وہ جی اچھا کہہ کر کام میں لگ گئی۔
تمام کام نبٹاتے ' وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔ وہ تمام سامان فریج میں رکھ رہی تھی' جب کسی کے کھنکارنے کی اواز آئی۔ ایوب سلیمان سر پہ نماز کی ٹوپی رکھے دروازے میں کھڑا تھا۔
" تراویح پڑھ کر آ رہا ہوں' تمہیں کچن میں دیکھا تو چلا آیا۔۔۔۔ کوئی ہیلپ کی ضرورت ہو تو بتاؤ۔"
" جی نہیں' بہت شکریہ۔" اس کا دل تو ایوب سلیمان کو دیکھ کر عجیب ہی لے پر دھڑکنے لگتا تھا۔
" میں فارمیلٹی نہیں نبھا رہا ہوں سچ میں پوچھ رہا ہوں۔" وہ دو قدم اگے بڑھ کر فریج کا جائزہ لینے لگا۔ ہر شے تیار کر کے ائر ٹائٹ جار میں محفوظ کر کے اس نے قرینے سے فریج میں رکھ دی تھی۔
" ایک بات تو ماننی پڑے گی صبا۔۔۔۔ تمہاری امی کوئی بہت ہی سلیقہ شعار خاتون ہوں گی۔" وہ سراہے بغیر نہ رہ سکا مگر اس کی اس تعریف نے اس کے چہرے کا رنگ ہی تبدیل کر دیا۔
" اوہ۔۔۔! آئی ایم سوری۔۔۔۔"
" نہیں جو سچ ہے وہ تو ہے اور وہ جو کوئی بھی تھیں ' اپ نے ان کی تعریف ہی کی ہے اور ماں کی تعریف کسے بری لگتی ہے چاہے میں نے انہیں نہیں دیکھا' مگر وہ میری ماں تو ہیں۔" وہ انسوؤں پر بند نہ باندھ سکی۔
" ہوں۔۔۔ چلو اگر موڈ ہو تو دو کپ چاۓ بنا لو' لان میں جا رہا ہوں میں۔" وہ باہر کی طرف بڑھتے ہوۓ بولا۔