SIZE
1 / 15

گھر میں ایک ہنگامہ بپا تھا۔ رمضان المبارک کی آمد آمد تھی' ہر کسی کو اپنے اپنے حساب سے شاپنگ لسٹ بنوانی تھی ۔ وہ دادی کے پاس بیٹھی سارے گھریلو سامان کی لسٹ بنانے میں مصروف تھی جب تائی چلی آئیں۔

" سنو صبا۔۔۔۔ وہ پانچ کلو میدہ بھی لکھ دو۔۔۔ ہانیہ روز میدے کا پراٹھا کھاتی ہے نا سحری میں اور وہ۔۔۔۔ صندل اور الائچی کے شربت لکھنا نہ بھولنا ۔۔۔ ہاۓ ہاۓ اتنی گرمی ہے خدا کی پناہ۔۔۔۔" وہ ارام سے دادی کے پاس تخت پر بیٹھ گئیں۔

" تائی میں نے لکھ دیا ہے۔ وہ بادام کی کھجور کے پیکٹ لکھوں یا الگ سے بادام لکھ دوں ' گھر میں بنا لیں گے کھجور۔"

" آۓ ہاۓ رہنے دو۔۔۔۔ جو بازار سے بادام والی کھجور ملتی ہے نا! اس کا الگ ہی مزا ہوتا ہے۔۔۔ یہ لمبی لمبی کھجور اور بڑا بڑا بادام۔"

وہ دادی کی گود سے سبزی کی ٹوکری لے کر خود بنانے لگیں۔

" سنو زرا! ایوب کے کمرے میں جاؤ اور اس سے پوچھو کہ اسے تو کچھ نہیں منگوانا ۔" انہیں اپنے بڑے بیٹے کا خیال آیا۔

" جی تائی۔" وہ پاؤں میں چپل اڑس کر ایوب سلیمان کے کمرے کی طرف چل دی' اس نام سے دل کی دھڑکن نہ جانے کیوں بڑھ جاتی تھی اور ایسا تب سے تھا جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی' تب اسے ایوب نامی لمبے سے لڑکے سے ڈر لگتا تھا اور اب دل دل کے دھڑکنے کا سبب کچھ اور تھا۔

دروازے پر دستک دے کر وہ اندر داخل ہوئی تو وہ کمپیوٹر پر کوئی کام کرنے میں مصروف تھا' کام تو اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ دادا جان کے بزنس کو تایا جان اور بابا نے سنبھالا اور ایوب نے اسے ترقی کی بلندی پر پہنچا دیا۔

" ایوب بھائی۔۔۔۔! وہ تائی امی پوچھ رہی ہیں کہ رمضان کی لسٹ بنا رہے ہیں کچھ چاہیے اپ کو؟"

" ہوں۔۔۔۔" وہ اس کی اواز پر چونکا۔ ہلکے رنگوں کے پرانے سے سوٹ میں جو شاید ہانیہ کا ہی تھا' وہ بہت سادہ مگر معصوم لگ رہی تھی۔

" ہاں۔۔۔۔! نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے میں سب کچھ کھا لیتا ہوں۔۔۔ سنو۔۔۔" اس نے کام سے سر اٹھا کر بہت غور سے اسے دیکھا۔

" تمہیں کچھ پسند ہے؟"

" نہیں۔۔۔! اپ کو بھی پتا ہے کہ میں بھی سب کچھ کھا لیتی ہوں۔" وہ اہستگی سے کہہ کر نکل گئی۔