اس نے اس شخص کو اس وقت پہچانا تھا جب بچے صرف ٹافیوں اور گولیوں کو جانتے تھے بس۔ تو وہ کیسے بھول سکتی تھی کہ میدان ہتھیاروں سے لیس شکاریوں کا تھا اور وہ اکیلی تھی۔
چاچی کے بقول ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اور دھوکہ علینہ کے باپ نے دیا تھا اور علینہ ان کے سامنے تھی ۔ مہروز' افروز' اقصی' میرین' چاچی چاچو سب نے اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اسے ستا ستا کر ذہنی طور پر تھکا ڈالا اور اس سب میں ندیم کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا تھا اور یہ ہتھیار ایسا موثر اور پکا ثابت ہوا تھا کہ علینہ کے لیے سانس لینا بھی مشکل تھا۔
ادھر ثمینہ تنگ ہوئی اور یہاں اس پر زمین تنگ ہوئی۔ شیطان نے اپنا جال بچھانا شروع کیا اور وہ؟ اس جال کو توڑنے میں ناکام تھی امی ابو ایسی ذہنی اذیت میں گرفتار ہوۓ تھے کہ نہ جی سکتے تھے نہ مر سکتے تھے۔ کس سے گلہ کرتے ' ان کی بیٹی ڈوبی تھی۔ کس نے سننی تھی' ان کی بیٹی پریشان تھی تو علینہ کا بھی پریشان رہنا حق تھا۔
اس میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ کسی نے بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا تھا۔ طعنے نہیں دیے تھے کہ ثمینہ کو ڈبویا گیا ہے' ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے بلکہ ان سب بہن بھائیوں نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ مہروز نے بیوی کے ذریعے تمام راستے زہر آلود کر دیے تھے اس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب کیوں اور کس لیے کیا جا رہا ہے۔ سب ایک منصوبے کے تحت کام کر رہے تھے۔
ندیم کا غصہ بجا تھا۔ زیادتی ہوئی تھی مگر غصے میں اپنی جگہ صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ وہ غلط طریقے سے استعمال بھی کیا جا رہا تھا اور اسے علم بھی نہیں تھا۔
اپنی طرف سے وہ صحیح طریقے ' سیدھی راہ پر گامزن تھا مگر یہ اس کی بھول تھی۔ سب مل کر اسے دھوکہ دے رہے تھے اور نہ علینہ کو پتا تھا نہ ندیم کو۔ وہ حیران ہوتی تھی کہ انہوں نے تو اچھائی کی تھی اور جواب برائی سے مل رہا تھا۔ وہ گھر جو تنکا تنکا جوڑا تھا ' اب اس میں چنگاری رکھنے کی تیاری تھی۔
وہ غریب گھر سے آئی تھی' قدم قدم پر اس کا احساس دلایا جاتا۔ اس کی کم حیثیتی کا۔ وہ زہانت سے بھری ہوئی لڑکی یہاں عملی طور پر فیل ہو گئی تھی۔ یہ گھر چاچی کا تھا اور چاچی ثمینہ کی ماں تھیں اور وہ بہو تھی اور باقی سارے آگے پیچھے والے مقابل۔
احسان ہے بے سود گلہ ان کی جفا کا
چاہا تھا انہیں ہم نے خطا وار ہم ہی تھے
وہ احسان کے بدلے احسان میں آئی تھی اور احسان اکارت ہو گیا تھا۔ ثمینہ نے آ کر ماں کے سامنے دکھڑے روۓ تھے اس کے پوچھنے پر بلا ارادہ ہی پھٹ پڑی تھی اور وہ حیران رہ گئی تھی یہ بات جان کر کے اس کے ستاۓ جانے کی وجہ یہ تھی اور اس میں ایک عالم نے اس سے بدلے لیے تھے۔ کسی نے حسد کی آگ میں جلایا تھا تو کسی نے انتقام کی بھٹی میں جھونکا تھا اور مہرین اس جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی تھی۔ یہ رشتہ تو افروز' ان کے اپنے بڑے بھائی نے اوکے کیا تھا۔ بھلا وہ کسیے قصوروار ہو گۓ ' انہوں نے تو بتایا تھا بس۔ باقی کام تو خود اپنی مرضی سے ہوا تھا۔ شادی تو کنویں کی چھلانگ ہے ' ڈوبنا ہے یا تیرنا ہے یہ تو کودنے والے کے مقدر کی بات ہے