ندیم بھائی کسی سرکاری سکول میں ٹیچر تھے مگر انہوں نے کبھی علینہ کو منگیتر نہیں سمجھا بلکہ دوسروں کی طرح ہی ملتے تھے جیسے فیروز چاچی ' جیسے فضل چاچو مگر اب اس نے اڑتی اڑتی سنی تھی کہ وہ اس کے منگیتر ہیں۔
" پہلے اسے چپل تو لے دو' دیکھو کیسے پھٹی ایڑیاں لیے پھرتی ہے۔" وہ ندیم بھائی کی گردن دبوچے اسے احساس دلا رہے تھے کہ اس کے پاس تو پہننے کو جوتے بھی نہیں۔ اسے بے حد دکھ ہوا مگر وہ ٹوٹے سلیپر گھسیٹتی اندر چلی گئی۔
بہت دن بعد اس نے ندیم کو مہرین کے ساتھ دیکھا تھا اور مہروز بھائی مہرین اور ندیم کو سیر کراتے پھر رہے تھے۔ مہرین کا چہرہ خوشی سے لال ہو رہا تھا۔ مہروز بھائی' مہرین اور ندیم کو آئس کریم کے کپ دے کر خود تھوڑی دور کھڑے ہو کر ان کے آئس کریم ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ کالج سے واپس آ رہی تھی۔ سڑک کے ساتھ وہ کھڑے تھے ۔" آئس کریم کھاؤ گی علینہ؟" اور اس نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی ۔ اور اس کے چلے جانے کے بعد وہ ندیم بھائی کو علینہ کی بدتمیزی کی بابت بتا چکے تھے۔ مہرین اور ندیم کی ہنسی میں جاندار ہنسی مہرین کی تھی۔
ندیم بھائی اب اکثر ہی مہروز بھائی کے گھر آ جاتے تھے۔ گاجر کے حلوے' چاولوں کی کھیر' خالص کھوۓ کی مٹھائی سے تواضع ہوتی۔ اتفاق سے مہروز بھائی کی منگنی بھی ندیم کی چھوٹی بہن سے ہوئی تھی۔ تو اصولا تو مہرین جاتی اور اقصی آتی مگر یہ رشتہ زرا مختلف تھا۔
ندیم اور مہرین کا رشتہ ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ ان کی بڑی بہن ' افروز بھائی کی بیوی تھی اور اور افروز سے چھوٹا ندیم۔ وہ دونوں بھائی اب مہرین کو بھی وہیں پہنچانا چاہتے تھے ۔ الماس ' افروز کو بھڑکاتی تھی اور مہروز اور مہرین ندیم کو۔ اور یہ رشتہ ختم کر دیتے۔ وہ حلوے' پکوڑے ' کھیر' پیڑے برفیاں اور خوشبو اڑاتے پلاؤ مگر ان ہی دنوں ندیم سے چھوٹی ثمینہ کا رشتہ ابو نے کروا دیا۔ دونوں گھرون کے رشتے پہلے سے بھی مضبوط ہو گۓ۔ چاچو نے فورا ہی ثمینہ کو رخصت کیا اور علینہ کو ندیم سے بیاہ لاۓ۔ مہروز بھائی کا چہرہ ابگیں جیسا ہو گیا تھا اور مہرین آگ بگولا ہو گئی اور ماموں کا چہرا کرخت جھریوں سے اٹ گیا انہوں نے اس رشتے کو کبھی قبول نہیں کیا تھا جب بڑی گئی تھی تو چھوٹی کیوں نہیں۔
آخر کیا تھا علینہ میں ' جو مہرین میں نہیں تھا۔ ان کی نازوں پلی بیٹی ندیم کے ساتھ ہی رخصت ہوتی اور ماسٹرنی کہلاتی مگر ثمینہ کے کرواۓ گۓ رشتے نے سب کچھ ملیا میٹ کر دیا تھا۔ ندیم کو کبھی بھی مہرین میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے بحیثیت بیوی سمجھ بھی لیا تھا اور جان بھی لیا تھا۔ اب مہروز اس کی زندگی میں کہیں نہیں تھا۔ نہ بستے دکھانے کو نہ کپڑے لتے دکھا کر پوچھنے کو ۔ وہ اب ان سے اچھا پہن اوڑھ رہی تھی۔ ہر طرف خوشیاں تھیں مگر پھر خوشی کے دن ختم ہوۓ۔
ثمینہ کا شوہر نشئی اور شرابی نکلا ' ثمینہ خوش نہیں تھی تو علینہ کو کون خوش رہنے دیتا۔ مہروز ایک بار پھر سرگرم ہو گیا تھا۔ آخر وہ ندیم کا بہنوئی بھی تھا اور بیوی کے ذریعے جو کہلوا سکتا تھا ' کروا سکتا تھا۔ اب کے اس کی بیوی کا غصہ بھی سوا نیزے پر تھا ۔ مہروز بہن اور بیوی کا استعمال اچھی طرح جانتا تھا مگر وہ یہ کام پس پردہ کر رہا تھا مگر وہ اس جیسے شیطان کو سو پردوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔