مگر انہیں یہ بات کون سمجھا سکتا تھا بھلا۔ سب جی بھر کر اپنا غصہ نکال رہے تھے۔ کاش انہوں نے شادی تھوڑے عرصے بعد کی ہوتی یا نہ کی ہوتی۔
مہروز کے اندر انتقام کی آگ روز بروز بڑھ رہی تھی ۔ وہ بہن کو تحفے تحائف ' فضول سی چیزیں اسے دکھا دکھا کے دیتا تھا گو کہ علینہ اب ان چیزوں کی محتاج نہیں رہی تھی مگر یہ اس شخص کی کمینگی تھی جو کھل کر سامنے آئی تھی۔ اس کی نفرت آج تک جوان تھی اور ندیم اسے ثمینہ کا اور اپنا ہمدرد سمجھتا تھا مگر علینہ اب چھوٹی علینہ نہیں تھی۔ وہ اس دوغلے کمینے شخص سے نفرت کرتی تھی اور جانتی تھی کہ یہ جال مہروز کا بچھایا ہوا ہے۔ ان کی ہمدردی میں اپنا انتقام لے رہا ہے مگر یہ بات ندیم کو کون سمجھا سکتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مہروز اس کا سب سے اچھا دوست ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ مہروز اور مہرین نت نئے ہتھکنڈے اپناتے رہے۔ وہ کبھی بہن کو ندیم کے قریب کر کے اسے اذیت پہنچاتا ' کبھی اسے سنا سنا کر باتیں کرتا۔ کبھی ٹوٹی چپل یاد دلاتا ' کبھی بہن کو تحفے دے کر دکھاتا مگر وہ کسی چیز سے نہیں گھبرائی بلکہ اپنے عمل اور اچھے سلوک ' نیکی اور انصاف سے ثابت کرتی رہی کہ وہ سب غلط تھے۔
جب اس کا بیٹا عبداللہ دنیا میں آیا تو اس کے قدم تھوڑے مضبوط ہوۓ مگر حالات جوں کے توں رہے۔ مہروز کسی کو سیدھا نہیں ہونے دیتا تھا۔ وہ بھی ایک گرم ترین دوپہر تھی۔ سب اپنے کمروں میں گھسے ہوۓ تھے۔ مہروز ' بہن کے کمرے میں تھا ۔ وہ کل سے یہیں تھا۔ ندیم نے واپس آتے ہوۓ بہت سے پھل خریدے اور سیدھا ان ہی کے پاس جا رہا تھا۔
" اس ندیم بے غیرت کو تو میں ایسا سبق سیکھاؤں گا ناں کہ یاد ہی رکھے گا کمینہ ' میری بہن کوئی مزاق نہیں۔"
اس کے قدم تھم گۓ۔ وہ الٹے قدموں واپس آیا تھا جیسے لمبے سفر سے واپس ایا ہو ۔ پھلوں کے شاپر خلاف توقع علینہ کو پکڑا دیے خود اندر چلا گیا اور اس نے پھل کاٹ کر مہروز کو دینے کا بھی نہیں کہا۔
"اور ندیم یار! کدھرہے تو۔" وہ دور سے کھوکھلے قہقہے لگاتا ہوا آ رہا تھا۔
" ندیم سو رہے ہیں۔" علینہ نے دھیرے سے جواب دیا۔ وہ واپس لوٹ گیا۔
وہ حیرت زدہ تھی کہ ندیم باہر کیوں نہیں آیا۔ وہ تو باتھ روم سے ہی بول پڑتا تھا " جی آیا"۔ مگر اب؟چپکے سے اندر آئی' وہ بیٹھا تھا۔
" زرا تربوز کاٹ لاؤ۔" وہ دونوں کالا نمک ڈالے تربوز کھانے میں مگن تھے کہ شیطان پھر آ گیا۔
" آؤ زرا تمہارے ساتھ باہر جانا ہے۔"
" مہروز بھائی! میں اج عبداللہ اور علینہ کے ساتھ باہر جاؤں گا۔ بڑے دن ہو گۓ ہیں۔ اسے کہیں لے کر نہیں گیا" وہ عبداللہ کو اوپر نیچے اچھال رہا تھا۔ مہروز کا منہ یہ بات سن کر بگڑ گیا تھا اور علینہ خوش ہو گئی تھی۔
اللہ یوں بھی راستے سیدھے کر دیتا ہے۔ جہاں سے امید بھی نہیں تھی' وہیں سے کشتی پار لگ چکی تھی ۔ اب وہ اپنے گھر اور شوہر دونوں کی رانی تھی۔ عبداللہ کے قہقہے چھت پھاڑ تھے ۔ اسے بھی شاید پتا چل گیا تھا وہ جلدی جلدی تیار ہونے چل دی۔